بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ضعیف حدیث سے امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی کا حکم ثابت کرنا


سوال

کیا کسی حدیث ضعیف سے شریعت کا کوئی حکم ثابت ہوتا ہے؟ اگر نہیں تو امام ترمذی بعض احادیث کو ضعیف شمارکرتے ہیں ، پھر بھی حکم کا استنباط کرتے ہیں،  اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب

امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی ( 279ھ) حدیث کے امام،  علل اور دراسۃ الأسانيد میں مجتہد کا درجہ رکھتے ہیں، وہ  محض ضعیف حدیث سے استنباط کی بجائے خارجی قرائن سے ضعیف حدیث کو تقویت دیتے ہیں، جیسے خارجی قرائن کی بنیاد پر حدیثِ حسن کو صحیح لغیرہ ، اور ضعیف کو حسن لغیرہ  بنایا جا تا ہے ، اسی طرح "تعاملِ امت "بھی ان قرائن میں سے ایک مضبوط قرینہ ہے، یہی وجہ ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی حدیث پر کلام کرنے کے بعد اس پر عمل کرنے والوں کا تذکرہ فرماتے ہیں، جس سے جہاں" فقہ الحدیث" کی طرف اشارہ ہوتا ہے، وہیں تعامل کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے،بلكہ بسا اوقات اسی تعامل کی بناء پرضعيف حديث کو صحیح حدیث پر ترجیح دیتے ہیں، جس کی متعدد مثالیں موجود ہیں، ان میں سے دو مثاليں مختصراً  یہاں ذکر کی جاتی ہیں:

1۔ زینب بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شوہر ابو العاص  پہلے حلقہِ اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے ، حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کی ہجرت کے کئی عرصہ بعد آپ مشرف با سلام ہوئے، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح دوبارہ ان سے کر دیا تھا، اس واقعہ کے متعلق مختلف روایات ہیں، ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  بغیر نکاح کے انہیں واپس کر دیا تھا، جبکہ دوسری روایت میں ہے کہ دوبارہ نکاح کیا گیا اور دوبارہ مہر دیا گیا تھا۔ امام ترمذی علیہ الرحمہ دونوں روایتیں لائے ہیں، پہلی روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس روایت کی سند میں کوئی حرج نہیں، یعنی اس کی سند صحیح ہے، لیکن اس پر کسی کا عمل نہیں، جبکہ دوسری روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں، اس کی سند میں کلام ہے، لیکن اہل علم کا عمل اسی پر ہے، اور امام ملک،امام اوزاعی، امام شافعی ،امام احمد اور امام اسحاق کا مذہب بھی اسی روایت پر ہے۔

پہلی روایت:

عن ابن عباس قال: رد النبيصلى الله عليه وسلم ابنته زينب على أبي العاص بن الربيع بعد ست سنين بالنكاح الأول، ولم يحدث نكاحا.

هذا حديث ليس بإسناده بأس، ولكن لا نعرف وجه هذا الحديث، ولعله قد جاء هذا من قبل داود بن حصين من قبل حفظه.

(سنن الترمذي، أبواب النكاح، باب ماجاء في الزوجين المشركين يسلم أحدهما، الرقم: 1143، 2: 439، دار الغرب الإسلامي، 1998م)

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو چھ سال بعد پہلے نکاح ہی میں لوٹا دیا تھا،  دوسرا نکاح نہیں ہوا تھا۔‘‘

امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی یہ روایت نقل کے بعد فرماتے ہیں:

’’اس حدیث کی سند میں کوئی حرج نہیں، لیکن اس حدیث کی وجہ اور مفہوم ہم نہیں جانتے، ممکن ہے کہ یہ داؤد بن حصین راوی کے حفظ کی وجہ سے اس میں کوئی مسئلہ ہوا ہو۔‘‘

دوسری روایت:

"عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رد ابنته زينب على أبي العاص بن الربيع بمهر جديد ونكاح جديد.

هذا حديث في إسناده مقال، والعمل على هذا الحديث عند أهل العلم: أن المرأة إذا أسلمت قبل زوجها ثم أسلم زوجها وهي في العدة أن زوجها أحق بها ما كانت في العدة، وهو قول مالك بن أنس، والأوزاعي، والشافعي، وأحمد، وإسحاق."

(سنن الترمذي، أبواب النكاح، باب ماجاء في الزوجين المشركين يسلم أحدهما، الرقم: 1142، 2: 439، دار الغرب الإسلامي، 1998م)

’’عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب رضی اللہ تعالی عنہ کو نئے مہر اور نئے نکاح کے ساتھ حضرت ابو العاص رضی اللہ تعالی عنہ کی زوجیت میں دیا تھا۔‘‘

امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:

’’اس حدیث کی سند میں  کلام  ہے  ، اور اہل علم کے ہاں عمل اسی حدیث پر ہے کہ جب عورت اپنے خاوند سے پہلے مسلمان ہو جائے، پھر اس کا خاوند اسلام میں داخل ہوجبکہ وہ عدت ہی میں ہو، تو اس کا شوہر اس کا حق دار ہے جب تک وہ عدت میں ہو (اور جب عدت گزر جائے تو نکاح ختم ہو جاتا ہے، اور اگر دوبارہ ملنا چاہیں تو از سرنو نکاح کرنا ہوگا)، اور یہی امام ملک،امام اوزاعی، امام شافعی ،امام احمد اور امام اسحاق کا مذہب  ہے۔‘‘

2۔اسی طرح "جمع بین الصلاتین من غیر خوف ولا مطر"(یعنی دو نمازوں کو جمع کرنا بغیر کسی خوف اور بارش کے عذرکے) اس مسئلہ میں امام ترمذی ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی سندًا صحیح روایت لائے ہیں، اور اس روایت کے دیگر طرق کی طرف اشارہ بھی کیا ہے، چناں چہ وہ نقل فرماتے ہیں:

"عن ابن عباس، قال: جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم بين الظهر والعصر، وبين المغرب والعشاء بالمدينة من غير خوف ولا مطر، قال: فقيل لابن عباس: ما أراد بذلك؟ قال: أراد أن لا يحرج أمته.

وفي الباب عن أبي هريرة. حديث ابن عباس قد روي عنه من غير وجه، رواه جابر بن زيد، وسعيد بن جبير، وعبد الله بن شقيق العقيلي. وقد روي عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم غير هذا."

’’ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں: کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر و عصر ، اور مغرب و عشاء کی نمازوں کو کسی خوف اور بارش کے ( عذر کے) بغیر جمع فرمایا، راوی کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے اس کی وجہ  دریافت کی  گئی، تو آ پ  رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایاکہ یہ اس لیے تاکہ امت حرج میں مبتلا نہ ہو۔ 

امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں اس باب میں حضرت ابو ہرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی روایت مروی ہے، اور ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت کئی لوگوں سے مروی ہے، جن میں جابر بن زید، سعید بن جبیر، اور عبد اللہ بن شقیق العقیلی سرِ فہرست ہیں، اور ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے  اس کے علاوہ( اس کے خلاف ) بھی روایت نقل کی ہے۔‘‘

(سنن الترمذي، أبواب الصلاة، باب ماجاء في الجمع بين الصلاتين، الرقم: 187، ا: 258، دار الغرب الإسلامي، 1998م)

جبکہ اس کے برخلاف ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما ہی کی ایک ضعیف حدیث لاکر فرماتے ہیں کہ عمل اس روایت پر ہے:

"عن عكرمة، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من جمع بين الصلاتين من غير عذر فقد أتى بابا من أبواب الكبائر.

وحنش هذا هو أبو علي الرحبي، وهو حسين بن قيس، وهو ضعيف عند أهل الحديث، ضعفه أحمد وغيره. والعمل على هذا عند أهل العلم: أن لا يجمع بين الصلاتين إلا في السفر أو بعرفة."

’’ابن  عباس رضی اللہ تعالی عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ جس نے دو نمازوں کو بغیر کسی عذر کے جمع کیا، وہ کبیرہ  گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر آیا۔

امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: حنش راوی ابو علی الرحبی ہیں، اور یہی حسین بن قیس ہیں، محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں، امام احمد بن حنبل اور دیگر ائمہ حدیث نے ان کی تضعیف کی ہے، لیکن اہل علم کا ہاں عمل اسی پر ہے کہ دونمازوں کو جمع نہ کیا جائے الا یہ ہے سفر میں ہو یا عرفہ میں۔‘‘

نن الترمذي، أبواب الصلاة، باب ماجاء في الجمع بين الصلاتين، الرقم: 188، ا: 259، دار الغرب الإسلامي، 1998م)

اس مثال سے بھی معلوم ہو اکہ امام ترمذی علیہ الرحمہ ضعیف احادیث کی تقویت کے ليے جس طرح شواہد کا اہتمام کرتے ہیں، اسی طرح تعامل کے ذریعے بھی حدیث کی تصحیح اور تقويت فرماتے ہیں، محض  ضعیف حدیث سے استنباط  واستدلال نہیں کرتے ۔

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144112201388

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں