بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ضعیف حدیث کا بیان


سوال

آپ نے اپنی ویب سائٹ پے جتنی بھی احادیث شریفہ لکھی  ہوئی ہیں،  ان کے   ساتھ  یہ کیوں نہیں لکھا ہوا کہ یہ صحیح حدیث  ہے یا ضعیف؟

جواب

ہماری ویب سائٹ پر فتاوی عوام کے لیے  لکھے جاتے ہیں اور عوام کو یہ بتانے کی حاجت نہیں کہ جس حدیث کا حوالہ دیا جارہا ہے  وہ حدیثِ صحیح کے معیار پر پوری اترتی ہے یا حدیثِ  ضعیف کے معیار پر۔

ہماری ویب سائٹ پر جتنی احادیث لکھی جاتی ہیں وہ یا تو  صحیح احادیث ہیں یا ایسی احادیثِ  ضعیفہ  جو کہ اصولِ حدیث کی رو سے قابلِ  حجت ہیں اور ان کا بیان کرنا اور ان پر عمل کر نا درست ہے۔باقی اگر کوئی  سائل اس کے بارے میں سوال کرتا ہے تو جواب میں اس کی بھی وضاحت کی جاتی ہے۔

النكت على مقدمة ابن الصلاح (2/ 308):

" أن الضعيف لايحتج به في العقائد والأحكام، ويجوز روايته والعمل به في غير ذلك، كالقصص وفضائل الأعمال، والترغيب والترهيب، ونقل ذلك عن ابن مهدي وأحمد بن حنبل، وروى البيهقي في المدخل عن عبد الرحمن ابن مهدي أنه قال : " إذا روينا عن النبي صلى الله عليه و سلم في الحلال والحرام والأحكام شددنا في الأسانيد، وانتقدنا في الرجال، وإذا روينا في فضائل الأعمال والثواب والعقاب سهلنا في الأسانيد، وتسامحنا في الرجال".

 فتح المغيث (1/ 289):

"قد حكى النووي في عدة من تصانيفه إجماع أهل الحديث وغيرهم على العمل به في الفضائل ونحوها خاصةً، فهذه ثلاثة مذاهب".

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202140

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں