بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زائد مقدار میں ٹیبلیٹس کھانےکی بناء پر پیدا ہونے والے نشے کی حالت میں طلاق دینے کا حکم


سوال

(میاں بیوی کے درمیان )طلاق کے بارے میں  رات کو جھگڑا ہوا، میں نے نیند کی 6 ٹیبلیٹس کھائی،پھر سو گیا ،صبح 6 بجے  میں اٹھا ،میں بہت غصہ میں  تھا ،پھر جھگڑا ہوا ،دورانِ جھگڑامیں نے اس کے ابو کو کال کی کہ اس کو لے جاؤ اور اسے سمجھاؤ ، جب اس کا دماغ ٹھکانے آجائے تو بھیج دینا ،اس کے ابو کو کال کرنے بعد 8 ٹیبلیٹس مزید کھائی ،جب اس کا ابو آیا تو میں نشے میں تھا ،میں نےاس کے ابو کو کہا  کہ لے جاؤ اپنی بیٹی کو، پھر جھگڑا شروع ہو گیا ،بیوی نے کہا طلاق دے گا تو جاؤں گی، ایسے نہیں جاؤں گی ،اسکا ابو موجود تھا اور میں نشے میں تھا ،طلاق کے الفاظ یاد نہیں تھے کیا کہا تھا،میں نے دوسرے دن  اسے کال کی اور طلاق کے الفاظ کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا:" صرف طلاق طلاق طلاق طلاق طلاق کے الفاظ ایک سانس میں پانچ سے چھ  مرتبہ کہے اور کہا جاؤ"۔

اب کیا ان الفاظ سے طلاق واقع ہو جائے گی یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  آپ نے نشہ کی حالت میں  بیوی کے طلاق کے مطالبے کے جواب میں پانچ سے چھ مرتبہ   لفظ طلاق کہا ،اس  سے آپ کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اور نکاح ختم ہوچکا ہے، بیوی شوہر پر حرمت مغلظہ سے حرام ہوگئی ہےاس لیے اب آپ دونوں  کا  ساتھ رہنا  ،اور ازدواجی تعلقات برقرار رکھنا جائز نہیں ہے ،  (مکمل تین حیض اگر حمل نہ ہو ،حمل کی صورت میں بچے کی ولادت تک)  کے بعد  عورت دوسری جگہ نکاح کرنے کے لیے آزاد ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(أو سكران) و لو بنبيذ أو حشيش  أو أفيون أو بنج زجرًا، و به يفتى، تصحيح القدوري، و اختلف التصحيح فيمن سكر مكرهًا أو مضطرًّا، نعم لو زال عقله بالصداع أو بمباح لم يقع. و في القهستاني معزيًا للزاهدي: أنه لو لم يميز ما يقوم به الخطاب كان تصرفه باطلًا. اهـ. 

(قوله:  أو أفيون أو بنج) الأفيون: ما يخرج من الخشخاش. البنج: بالفتح نبت منبت. وصرح في البدائع وغيرها بعدم وقوع الطلاق بأكله معللا بأن زوال عقله لم يكن بسبب هو معصية. والحق التفصيل، و هو إن كان للتداوي لم يقع لعدم المعصية، وإن للهو وإدخال الآفة قصدا فينبغي أن لا يتردد في الوقوع.

وفي تصحيح القدوري عن الجواهر: وفي هذا الزمان إذا سكر من البنج والأفيون يقع زجرا، وعليه الفتوى، وتمامه في النهر (قوله:  زجرا) أشار به إلى التفصيل المذكور، فإنه إذا كان للتداوي لا يزجر عنه لعدم قصد المعصية ط."

 

( كتاب الطلاق،239/3-240،ط:سعيد)

وفیه ایضاً:

 "وهكذا يقول في غيره من الأشياء الجامدة المضرة في العقل أو غيره، يحرم ‌تناول ‌القدر المضر منها دون القليل النافع، لأن حرمتها ليست لعينها بل لضررها."

(كتاب الأشربة، 457/6، ط: سعید)

وفيه ايضا:

"لو أراد طلاقها تكون الإضافة موجودةً ويكون المعنى فإني حلفت بالطلاق منك أو بطلاقك، ولايلزم كون الإضافة صريحةً في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له: من عنيت؟ فقال: امرأتي، طلقت امرأته، العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله: إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها؛ لأنه يحتمله كلامه".

 (كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، مطلب سن بوشن، ج:3، ص248، ط: سعيد)

 فتاوی عالمگیری میں ہے:

"‌وإذا ‌قال ‌لامرأته أنت طالق وطالق وطالق ولم يعلقه بالشرط إن كانت مدخولة طلقت ثلاثا."

(كتاب الطلاق، الباب الأول،الفصل الأول في الطلاق الصريح، 355/1,ط:مكتبة رشیدية)

وفیه ایضاً:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير."

( كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به،472,73/1،ط:رشیدية)

 امداد الفتاوی میں ہے:

’’سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں:میں نے حالتِ غصہ میں یہ کلمے کہے ہیں: (طلاق دیتا ہوں طلاق طلاق) اور میں نے کوئی کلمہ فقرہ بالا سے زیادہ نہیں کہا اور نہ میں نے اپنی منکوحہ کا نام لیا اور نہ اس کی طرف اشارہ کیا اور نہ وہ اس جگہ موجود تھی اور نہ اس کی کوئی خطا ہے، یہ کلمہ صرف بوجہ تکرار (یعنی نزاع) یعنی میری منکوحہ کی تائی کے نکلے، جس وقت میرا غصہ فرو ہوا، فوراً اپنی زوجہ کو لے آیا، گواہ دو اشخاص ہیں: ایک میرے ماموں اور ایک غیرشخص ہے اور مستوراتیں ہیں؟

الجواب: چوں کہ دل میں اپنی منکوحہ کو طلاق دینے کا قصد تھا؛ لہٰذا تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں۔‘‘

(کتاب الطلاق،باب الطلاق الصریح والکنایہ،ج:5،ص:249،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102788

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں