بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زائد از ضرورت موقوفہ زمین پرمصالحِ مسجد کے لیے مکانات بنانا


سوال

ہمارے علاقے کی ایک جامع مسجد ہے، جس پلاٹ پر یہ مسجد موجود ہے،اس پلاٹ کو خرید کر مسجد کے لیے وقف کرنے والے شخص کا انتقال ہوگیا ہے،اس مسجد کی تین دفعہ توسیع ہونے کے بعد بھی اضافی جگہ  موجود ہےجو  مسجد کی ضرورت سے زائد ہے،جس شخص نے یہ جگہ مسجداورمصالح مسجدکےلیے وقف کی تھی اس کی زندگی میں اضافی جگہ پر دو مکان تعمیر ہوئے تھے،اس کے بعد بچ جانے والی جگہ  پر ایک مدرسہ یعنی مکتب تعمیر کیاگیاہے، اوراس مکتب میں تقریباً بیس بچے ناظرہ قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرتے ہیں،اس مکتب کا کوئی مستقل انتظام نہیں ہے، دن میں صرف  دو گھنٹے پڑھائی ہوتی ہے،ہماری مسجد ایک غریب علاقے میں ہے،جس کے چندے سے مسجد کے اخراجات پورےنہیں ہورہے ہیں،مسجد کی کمیٹی   اوربعض لوگوں کا یہ مشورہ ہے کہ مدرسے کی جگہ پر کچھ مکانات بنائےجائیں،تاکہ ان مکانات کے کرایہ سے مسجد کے اخراجات پورے کیے جائیں۔

اب سوال یہ ہےکہ کیا ہم مکتب کی جگہ پر مسجد کی مصلحت اور اخراجات پورے کرنے کےلیےمکانات بناسکتے ہیں؟

وضاحت:مسجد کی ضرورت سے زائد زمین پر مکتب صرف اس لیے بنایا تھاتاکہ بچے مسجد کو گندا نہ کریں اورمسجدکا تقدس باقی رہے،اور دو مکانات اس لیے بنائے گئےتھے کہ ایک  مکان امام مسجد کی رہائش کے لیے ہےاور دوسرامکان کرایہ پر دیا گیا ہے تاکہ اس کے کرایہ سے مسجد کی ضروریات پوری کی جائیں ۔

وضاحت:واقف نے مذکورہ  زمین کومسجداور مصالحِ مسجد دونوں کے لیے وقف کردی تھی۔

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی جگہ کو مسجد کے  لیے وقف کردیاجاۓتو شرعاًجب تک اس مکمل جگہ کو حدودِ مسجد میں داخل کر کے نماز پڑھنے کے  لیے متعین نہ کر لیا ہو،یعنی وہ جگہ عین مسجد کےلیے مخصوص نہ کی ہو،تواس وقت تک اس  جگہ کو، مسجد اور مصالحِ مسجد دونوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے؛لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کا بیان اگر واقعۃً صحیح ہے کہ اصل واقف نے مذکورہ زمین مسجداورمصالح مسجد دونوں کے لیے وقف کی تھی،توایسی صورت میں مسجد کی حدود متعین کرنے کےبعدمزیدتین مرتبہ مسجدکی توسیع کرنے کے باوجود  بھی مسجد کی زمین زائد از ضرورت ہے،جس پر عارضی طورپر بچوں کی تعلیم کے لیے مدرسہ یعنی مکتب بنایاگیا ہےجو مسجد ہی کےزیرانتظام ہے،تو  ایسی صورت میں  انتظامیہ مسجد اور اہلِ علاقہ کا باہمی اتفاق ِ راۓسے مصالحِ مسجد (یعنی مسجد کےاخراجات کو پورا کرنے) کی غرض سےزائد زمین پرمکانات بناکر  انہیں کرایہ پر دینا درست ہوگا،البتہ  بچوں کی دینی تعلیم کے پیش نظر مکتب کو برقرار رکھاجائے۔

البحر الرائق میں ہے:

"لو بنى بيتا على سطح المسجد لسكنى الإمام فإنه لا يضر في كونه مسجدا ‌لأنه ‌من‌المصالح  .....فإن قلت: لو جعل مسجدا ثم أراد أن يبني فوقه بيتا للإمام أو غيره هل له ذلك قلت: قال في التتارخانية إذا بنى مسجدا وبنى غرفة وهو في يده فله ذلك وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لا يتركه وفي جامع الفتوى إذا قال عنيت ذلك فإنه لا يصدق."

(كتاب الوقف، فصل اختص المسجد بأحكام تخالف أحكام مطلق الوقف، ج:5، ص:271، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"مسجد له مستغلات وأوقاف أراد المتولي أن يشتري من غلة الوقف للمسجد دهنا أو حصيرا أو حشيشا أو آجرا أو جصا لفرش المسجد أو حصى قالوا: إن وسع الواقف ذلك للقيم وقال: تفعل ما ترى ‌من‌مصلحة ‌المسجد كان له أن يشتري للمسجد ما شاء وإن لم يوسع ولكنه وقف لبناء المسجد وعمارة المسجد ليس للقيم أن يشتري ما ذكرنا وإن لم يعرف شرط الواقف في ذلك ينظر هذا القيم إلى من كان قبله، فإن كانوا يشترون من أوقاف المسجد الدهن والحصير والحشيش والآجر وما ذكرنا كان للقيم أن يفعل وإلا فلا، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الوقف، الباب الحادي عشر في المسجد وما يتعلق به، الفصل الثاني في الوقف وتصرف القيم وغيره في مال الوقف عليه، ج:2، ص:461، ط: دار الفكر)

العقود الدريہ في تنقيح الفتاوى الحامديہ میں ہے:

"نعم كما في الخانية والبزازية والله سبحانه وتعالى أعلم، وإن أراد قيم الوقف أن يبني في الأرض الموقوفة بيوتا يستغلها بالإجارة لا يكون له ذلك؛ لأن استغلال أرض الوقف يكون بالزرع ولو كانت الأرض متصلة ببيوت المصر يرغب الناس في استئجار بيوتها وتكون غلة ذلك فوق غلة الزرع والنخل كان للقيم أن يبني فيها بيوتا فيؤجرها؛ لأن الإستغلال بهذا الوجه يكون أنفع للفقراء كذا في الخانية بحر من الوقف."

(كتاب الحيطان وما يحدث الرجل في الطريق وما يتضرر به الجيران ونحو ذلك، ج:2، ص:267، ط: دار المعرفة)

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ہے:

سوال:دکانات و چند حجرے متعلق مسجد،حدود صحن مسجد کے باہر(اتر،دکھن،پورب) اس غرض سے بنائے گئے ہیں کہ دکانات کی امدانی مسجد میں صرف ہو، اور حجروں میں مسافر لوگ آرام کریں اور جب خالی ہوں اور کوئی اہل روزگار آجاتا ہے مہینہ دو مہینہ یا کم وبیش رہ جاتے ہیں تو ان سے کرایہ لیا جاتا ہے اور وہ مسجد کے صرف میں آتا ہے، ان حجروں کا بنانا اور ان کا کرایہ مصارف مسجد میں صرف کرنا درست ہے یا نہیں؟

الجواب:مذکورہ حجروں کا بنانا بہ غرض مصارف مسجد اور ان کا کرایہ مصارف مسجد میں صرف کرنا درست ہے۔

(زیرِ عنوان:حدود مسجد کے باہر دکانیں یا کمرے بنا کر ان کا کرایہ مسجد میں صرف کرنا درست ہے، وقف کا بیان، ج:13، ص:408، ط: دارالاشاعت کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102629

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں