بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ضاد کو دال پڑھنے کیسا ہے؟


سوال

میرا سوال یہ ہے کے "ضاد" کو، دال، پڑھنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ حرفِ "ضاد" اپنے مخرج وصفات کے اعتبارسےحرفِ"دال" سے بالکل جدا ایک مستقل حرف ہے،لہٰذا اس کو اس کے مخرج سےاس کی صفات کی رعایت رکھتے ہوئےہی پڑھنا چاہئے،اس کو حرفِ"دال"سےبدلناصریح غلطی ہے، البتہ فسادِ نماز کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر کوئی شخص درست تلفظ  پر قادر ہونے کےباوجود  جان بوجھ  کر یالا پروائی سے "ضاد" کے بجائے "دال " پڑھے،تو  نماز فاسد ہوجائے گی اور اگرکوئی شخص درست تلفظ  پر قادر نہ ہو یاغلطی سے اس کی زبان سے "ضاد"کے بجائے "دال"نکلے تو نماز فاسد نہیں ہوگی ،لیکن اپنی قدرت کے مطابق صحیح حروف  پڑھنے کی مشق اور کوشش کرتے  رہنا ضروری ہے  ،ورنہ گناہ گار ہوگا،اگرچہ نماز فاسد نہیں ہوگی۔

فتاوى قاضی خان میں ہے:

"و إن ذكر حرفًا مكان حرف و تغير المعنی، فإن أمكن الفصل بين الحرفين من غير مشقة كالطاء مع الصاد فقرأ: الطالحات مكان الصالحات، تفسد صلاته عند الكل، و إن كان لايمكن الفصل بين الحرفين الا بمشقة كالظاء مع الضاد و الصاد مع السين، و الطاء مع التاء، اختلف المشائخ فيه، قال أكثرهم لاتفسد صلاته ... و لو قرأ الدالين بالدال تفسد صلاته."

( كتاب الصلاة، فصل في القراءة في القرآن، 129،131/1، ط: دار الكتب العلمية )

امداد الفتاوی میں ہے:

"سوال (۲۳۳) : قدیم ۱/ ۲۶۷- ضاد کو کس طرح پڑھنا چاہیے اور اکثر فقہاء کا قول کیا ہے  اور اکثر کتبِ دینیات  اس کےذکر میں کیا لکھتے ہیں ؟

الجواب: في الجزریة: والضاد من حافته إذ ولي۔۔۔۔۔۔۔۔۔الأضراس من أیسر أویمناها.

جب مخرج معلوم ہوگیا تو ضاد کے ادا کرنےکا یہی طریقہ ہے کہ اس کے مخرج سے نکالا جاوے۔ اس نکالنے سے بوجہ عدمِ مہارت خواہ کچھ ہی  نکلے عفو ہے اور اگر قصداً دال یا  ظاء پڑھے وہ جائز نہیں، جیسا کہ بعض نے دال پڑھنے کی عادت کرلی ہے۔ اور بعض نے  فقہاء کے کلام میں یہ دیکھ کر کہ ضاد مشابہ  ظاء ہے ظاء پڑھنا شروع کردیا؛ حالانکہ مشابہت کی حقیقت صرف مشارکت فی بعض الصفات ہے اور مشارکت فی بعض الصفات سے اتحادِ ذات لازم نہیں آتا۔ رہا قاضی خان کے اس جزئیہ سے کہ ’’لو قرء ولا الظالین لاتفسد صلاته‘‘  ظاء پڑھنے کی اجازت سمجھ لینا اس کو دوسرے جزئیات قاضی خان کے رد کرتے ہیں ۔وهي هذه:

’’ولو قرء والعادیات ظبحًا بالظاء تفسد صلاته اهـ.  وکذ لو قرء غیر المغظوب علیهم بالظاء أو بالذال تفسد صلاته. و أمثال ذلك من الفروع المتعددة. والله أعلم۔"

( کتاب الصلاة، باب القراءة، فصل: في التجوید تحقیق ’’ضاد وظاء‘‘ ،25،26/2، ط: زکریا بک ڈپو، ہند)

جواہر الفقہ میں ہے:

"عوام کی نماز تو بلا کسی تفصیل وتنقیح کے بہر حال صحیح ہوجاتی ہے،خواہ "ظاء"پڑھیں یا"دال"یا "زاء"وغیرہ،کیوں کہ وہ قادر بھی نہیں ،اور سمجھتے بھی یہی ہیں  ہم نے اصلی حرف اداکیا ہے ، اور قراء ،مجودین اور علماء کی نماز کے جواز میں تفصیل مذکور ہے،کہ اگر غلطی قصداً یالاپروائی  سے ہو تو نمازفاسد ہے،اور سبقتِ لسانی یاعد مِ تمیزکی وجہ سے ہو،توجائزہے۔"

(حرفِ ضاد،36/3، ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100348

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں