بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

زبردستی طلاق نامہ پر دستخط کروانے کا حکم


سوال

میری والد صاحب کی رضا مندی سے ایک لڑکی سے شادی ہوئی، پھر رشتہ داروں نے اس پر اعتراض کیا، تو مجھے والدصاحب نے کہا کہ اسے طلاق دے دو، مجھے مجبور کیا،  پولیس والوں کو فون کیااور مجھے ایک مہینہ پندرہ دن جیل کروائی، میری بیوی نے بیل کروائی، مگر میرے والد نے وکیل کے ذریعے بیل رکوا دی، پھر مجھے خود چھوڑوایا اس غرض سے کہ میں طلاق دے دوں گا، دو دن مجھے خوب مارا پیٹا، دو دن بعد والد نہیں تھے تو میں بھاگ گیا، اس کے دو مہینے بعد بڑی عید پر والدین سے ملنے گیا، تو مجھے باندھ لیا، اور چھری گلے پر رکھ دی، اور مجھے کہا کہ تجھے مار دیں گے ، تو  میں نے کہا کہ مجھے مار دو ، میں طلاق نہیں دوں گا،پھر اپنے گلے پر چھری رکھی اور کہا کہ خود کو زخمی کر کے ،تجھ پر قتل کا الزام اور پھر جیل میں ڈلوا دوں گا، پھر مجھ سے طلاق نامہ پر  سائن کروایا، جب کہ میں باندھا ہوا تھا، کیا میری طلاق ہو گئی؟اگر طلاق ہو گئی تو دوبارہ رجوع کی کیا صورت ہے؟

جواب

 صورتِ  مسئولہ میں  اگرواقعۃً  ـ سائل کو باندھا ہوا تھااور پہلے قتل اور پھر قتل کے الزام میں جیل بھجوانے کی دھمکی دی گئی تھی اور سائل کو یقین تھاکہ یہ اپنی دھمکی پر عمل کر لیں گے، اس بناء پر سائل نے طلاق نامہ پر صرف دستخط کیے،  زبان  سے طلاق نہیں دی ، تو  اس سے طلاق واقع نہیں ہو ئی، نکاح برقرار  ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا، كذا في الخانية."

( کتاب الطلاق، رکن الطلاق ، ج:3، ص:236، ط:سعید) 

فتاوی  قاضی خان میں ہے:

"رجل أكره بالضرب والحبس على أن يكتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان ابن فلان فكتب امرأته فلانة بنت فلان ابن فلان طالق لا تطلق امرأته لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا."

(‌‌كتاب الطلاق، فصل في الطلاق بالكتابة، ج:1، ص:416، ط: دار الكتب علمية)

البحر الرائق  میں ہے:

"قوله: (ولو مكرها) أي ولو كان الزوج مكرها على إنشاء الطلاق لفظا...

"وقيدنا بكونه على النطق لأنه لو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا كذا في الخانية، وفي البزازية أكره على طلاقها فكتب فلانة بنت فلان طالق لم يقع."

(كتاب الطلاق،  ج:3، ص:246، ط: دارالكتاب الإسلامي

کفایت المفتی میں ہے:

"زبردستی طلاق نامہ پر  دستخط لینے سے طلاق واقع نہیں  ہوتی 

(سوال) ایک شخص  کی بیوی کے ورثاء نے ایک کاغذ پر اس شخص سے ناجائز دباؤ ڈال کر دستخط لئے جس میں طلاق کے الفاظ تھےآیا شرعا یہ طلاق باطل  ہے یا نہیں ؟

 (جواب ) "ناجائز دباؤ سے مراد اگر یہ ہے کہ اس کو مارنے یا بند رکھنے کی دھمکی دی تھی اور دھمکی دینے والے اس پر قادر بھی تھے تو اس کے دستخط کردینے سے طلاق نہیں ہوئی بشرطیکہ اس کے ذہن میں یہ بات آگئی ہو کہ اگر میں نے دستخط نہیں کیے تو یہ مجھے ضرور ماریں گے  یا بند رکھیں گے لیکن اگر یہ حالت نہ تھی اور پھر بھی اس نے دستخط کر دیے تو اگر یہ دستخط کرنے کا اقرار کرتا ہو کہ باوجود اس علم کےکہ اس میں طلاق لکھی ہوئی ہے پھر بھی میں نے دستخط کیے ہیں تو طلاق واقع ہو جائے گی۔"

(کتاب الطلاق، چھٹی فصل: کتابتِ طلاق، ج:6،ص:67، ط : دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101425

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں