بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جانور کے ذبح کا طریقہ


سوال

نکات کی صورت میں ذبیحہ کے آداب اور طریقہ بیان کیجیے!

جواب

(۱)   جانور کو قبلہ رخ لٹاتے ہوئے جانور کی بائیں کروٹ پر لٹانا پسندیدہ ہے، (یعنی ہمارے ملک میں جانور کی سر والی طرف جنوب میں اور دم والی جانب شمال میں ہو)، تاکہ دائیں ہاتھ سے چھری چلانے میں سہولت رہے۔ 

(۲)  جانور کو قبلہ رو لٹانے کے بعد ’’بسم اللہ، و اللہ اکبر‘‘  کہتے ہوئے تیز دھار چھرے سے جانور کے حلق اور لبہ کے درمیان ذبح کیا جائے۔

(۳)  گردن کو پورا کاٹ کر الگ نہ کیا جائے، نہ ہی حرام مغز تک کاٹا جائے، بلکہ ’’حلقوم‘‘  اور ’’مری‘‘  یعنی سانس کی نالی اور اس کے اطراف  کی خون کی رگیں جنہیں ’’اَوداج‘‘  کہا جاتا ہے کاٹ دی جائیں، اس طرح جانور کو شدید تکلیف بھی نہیں ہوتی اور سارا نجس خون بھی نکل جاتا ہے، اس طریقہ کے علاوہ باقی تمام طریقوں میں نہ ہی پورا خون نکلتا ہے اور جانور کو بلا ضرورت شدید تکلیف بھی ہوتی ہے۔

نیز شرعی ذبحہ کرنے والے کے لئے بھی تین شرطیں ہیں:

(۱)ذبح کرنے والے کا مسلمان ہونا۔

(۲)ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا۔

(۳)شرعی طریقہ پرچاررگوں ( حلقوم ، سانس کی نالی اور خون کی دورگیں) میں  سےکم ازکم تین رگوں کاکٹ جانا۔ مذکورہ ذبح کے شرائط اختیاری ذبح کرنے کا ہے، غیر اختیاری ذبح جیسے شکار وغیرہ کے احکام اس سے جدا اور الگ ہیں۔

(سوال کا مقصد کچھ اور و تو مکمل وضاحت کے ساتھ لکھ کر بھیجیں )

حدیث شریف میں ہے:

حدثنا قتيبة بن سعيد حدثنا أبو عوانة عن قتادة عن أنس قال ضحى النبى -صلى الله عليه وسلم- بكبشين أملحين أقرنين ذبحهما بيده وسمى وكبر ووضع رجله على صفاحهما.

(باب استحباب الضحية وذبحها مباشرة بلا توكيل والتسمية والتكبير، ج: ۶، صفحہ: ۷۷، رقم الحدیث: ۵۱۹۹، ط: دار الجيل بيروت + دار الأفاق الجديدة ـ بيروت)

بدائع الصنائع ميں هے:

"(وأما) شرائط ركن الذكاة فأنواع.........(ومنها) أن يكون مسلما."

(كتاب الذبائح والصيود، فصل في بيان شرط حل الأكل في الحيوان المأكول، ج: ۵، صفحہ: ۴۵، ط: دارالكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

"‌ثم ‌التسمية ‌في ‌ذكاة الاختيار يشترط أن تكون عند الذبح قاصدا التسمية على الذبيحة."

(كتاب الذبائح، ما يقوله عند الذبح، ج: ۸، صفحہ: ۱۲، ط: داراالكتاب الاسلامي)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"‌والعروق ‌التي ‌تقطع في الذكاة أربعة: الحلقوم وهو مجرى النفس، والمريء وهو مجرى الطعام، والودجان وهما عرقان في جانبي الرقبة يجري فيها الدم، فإن قطع كل الأربعة حلت الذبيحة، وإن قطع أكثرها فكذلك عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -، وقالا: لا بد من قطع الحلقوم والمريء وأحد الودجين، والصحيح قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - لما أن للأكثر حكم الكل، كذا في المضمرات."

(كتاب الذبائح ، الباب الأول في ركن الذبح وشرائطه وحكمه وأنواعه، ج: ۵، صفحہ: ۲۸۷، ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100097

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں