بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ذبخ اختیاری میں کم از کم تین رگوں کا کٹنا ضروری ہے


سوال

بسم اللہ  اللہ اکبر کہا،  چھری پھیری اور جانور یا پرندے کی جلد کٹی، کچھ خون بہا اور ابھی رگیں کٹنا باقی تھیں کہ جانور یا پرندہ مرگیا، اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا وہ حلال ہے یا حرام؟

جواب

 ذبح صحیح ہونے کے لیے  چار میں سے  کم ازکم تین رگوں کا کاٹنا ضروری ہے، اگر  تین سے کم رگیں کاٹی گئیں تو  ذبح صحیح نہیں ہوگا؛ لہذا اگر  جانور یا پرندے کی موت سےپہلے کم ازکم  تین رگیں کاٹی تھیں تو پھر ذبح صحیح ہے، اور ذبح شدہ جانور حلال ہے، اور اگر  کوئی رگ نہیں کاٹی گئی تھی،  صرف جلد کاٹی تھی  یا تین سے کم رگیں کاٹی کی گئی تھیں کہ اس دوران جانور کی جان نگل گئی تو ایسی صورت میں یہ  ذبح شرعا معتبر نہیں، اور یہ ذبیحہ حلال نہیں ہوگا۔

"والعروق التي تقطع في الذكاة أربعة: الحلقوم وهو مجرى النفس، والمريء، وهو مجرى الطعام، والودجان، وهما عرقان في جانبي الرقبة، يجري فيها الدم، فإن قطع كل الأربعة حلت الذبيحة، وإن قطع أكثرها فكذلك عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -، وقالا: لا بد من قطع الحلقوم والمريء وأحد الودجين، والصحيح قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - لما أن للأكثر حكم الكل، كذا في المضمرات ...... وإذا ذبح الشاة من قبل القفا، فإن قطع الأكثر من هذه الأشياء قبل أن تموت حلت، وإن ماتت قبل قطع الأكثر من هذه الأشياء لا تحل".

(الفتاوى الهندية: كتاب  الذبائح، الباب الأول في ركن الذبح وشرائطه (5/ 287)، ط. رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101336

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں