حکومت ایکسپائری چیز ضبط کرکے ضائع کرتی ہے۔ اگر کوئی افسر اس چیز کو اپنے ذاتی استعمال میں لائے تو کیا یہ جائز ہے؟
ایکسپائر اور زائد المیعاد اشیاء کی خریدو فروخت پر حکومت کی جانب سے پابندی عائد کرنا درست ہے اور تاجروں پر اس قانون کی پاس داری لازم ہے، اس لیے کہ بسا اوقات زائد المیعاد اشیاء عوام کے لیے جان لیوا ثابت ہوتی ہیں، جو لوگ زائد المیعاد اشیاء پابندی کے باجود فروخت کریں وہ قانوناً مجرم اور شرعاً گناہ گار ہوں گے۔ حکومت ایسے افراد کو مناسب سزا دے سکتی ہے۔
البتہ یہ اشیاء ضبط کرنا درست نہیں، بلکہ مالکان کو پابند کیا جائے کہ وہ خود ان اشیاء کو ہٹادیں یا تلف کردیں، یا جن کمپنیوں سے یہ اشیاء خریدی ہوں انہیں واپس کردیں۔ حکومت کا ان چیزوں کو ضبط کرکے اپنے پاس رکھنا درست نہیں ہے، اورمتعلقہ محکمہ کے کسی فرد کے لیے ضبط کرکے ان اشیاء کو اپنے استعمال میں لانا یا فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
’’وفي شرح الجواهر: تجب إطاعته فیما أباحه الشرع، و هو ما یعود نفعه علی العامة.‘‘
(فتاویٰ شامی، ج:۶، ص:۴۶۰، سعید)
وفیه أیضاً:
"وليس للإمام أن يخرج شيئًا من يد أحد إلا بحق ثابت معروف اهـ."
(مطلب القول لذي اليد أن الأرض ملكه وإن كانت خراجية،4/180،ط:سعید)
درر الحكام شرح مجلة الأحكام میں ہے:
"لأن للإنسان أن يتصرف في ملكه الخاص كما يشاء وليس لأحد أن يمنعه عن ذلك ما لم ينشأ عن تصرفه ضرر بين لغيره".
( المادة 1192 )(1/ 473 ط:دار الکتب العلمية).
’’شرح المجلۃ‘‘ میں ہے:
’’لایجوز لأحد أن یتصرف في ملك غیره بلا إذنه أو وکالة منه أو ولایة علیه، وإن فعل کان ضامنًا.‘‘
(شرح المجلة، ج:۱، ص:۶۱، مادۃ: ۹۶، دار الکتب العلمیة، بیروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144111200616
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن