بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زبردستی حق معاف کروانا


سوال

کیا کسی سے زبردستی کوئی چیز بخشانا کہ یہ مجھے بخش دو، ورنہ مارڈالوں گا، یہ جائز ہے ؟

جواب

شرعاًکسی سے زبردستی کوئی حق معاف کروانے سے وہ حق ختم نہیں ہوتا، بلکہ صاحبِ حق کا حق بدستور دوسرے شخص کے ذمہ باقی رہتا ہے، اور یوں زبردستی معاف کروانے سے کسی کا مال دوسرے کے لیے حلال نہیں ہوسکتا،احادیث میں کسی کی رضا و خوشی کے بغیر اس کے مال کو حاصل کرنے اور استعمال کرنے سے منع کیاگیا ہے ،کسی دوسرے کے مال کو غصب کرنا شریعت میں بڑاجرم اور گناہ کبیرہ ہےاور اس پر شدید وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔

حضرت مولانا مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ سورہ نساء آیت :4 کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

’’مطلب یہ ہے کہ جبر واکراہ اور دباؤ کے ذریعہ معافی حاصل کرنا تو کوئی چیز نہیں، اس سے کچھ معاف نہیں ہوتا، لیکن اگر وہ بالکل اپنے اختیار اور رضامندی سے کوئی حصہ مہر کا معاف کر دیں یا لینے کے بعد تمہیں واپس کر دیں تو وہ تمہارے لیے جائز ہے اور درست ہے۔‘‘

(ج:2،ص:298،ط:مکتبہ معارف القرآن)

مشکوۃ المصابیح میں ہے:

"قال رسول الله صلّى الله عليه وسلّم : ألا تظلموا ألا لا يحلّ مال امرئ إلاّ بطيب نفس منه" .

(مشکوۃ المصابیح، کتاب البیوع، باب الغصب والعاریۃ،رقم الحدیث:۲۹۴۶،ج:۲،ص:۸۸۹،ط:المکتب الاسلامی)

ترجمه:الله كے رسول صلي الله عليه وسلم نے ارشاد فرمايا:خبردار ہوجاؤ! ظلم نہ کرو،خبردار ہوجاؤ! کسی آدمی کا مال  اسی رضامندی کے بغیر حلال نہیں ہے۔

اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے :

"قال ابن نمير: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من أخذ شبرا من الأرض ظلما طوقه يوم القيامة إلى ‌سبع ‌أرضين"، قال ابن نمير: "من ‌سبع ‌أرضين."

ترجمه:الله كے رسول صلي  الله عليه وسلم كا ارشاد هے:کسی نے ایک بالش بھر بھی زمین ظلم سے لے لی تو سات زمینوں کا طوق اس کی گردن میں ڈالا جائے گا۔

(مسند أحمد،مسند العشرۃ المبشرۃ، مسند سعید بن زید 2/ 291 ،ط:دار الحدیث القاھرۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100488

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں