بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زبردستی شادی کرانے کا حکم


سوال

ایک شخص کی شادی کو آٹھ سے نو ماہ ہو چکے  ہیں، اس شخص  کی شادی اس کی اجازت اور رضامندی کے بغیر والد نے زبردستی کروا دی تھی اور اب تک دونوں میاں  بیوی کے درمیان  تعلق قائم نہیں ہوا  ہے ،جب کہ بیوی اسے برا بھلا بھی کہتی ہے اور تھپڑ بھی مارتی    ہے اور وہ شخص کچھ نہیں کہتا ،اب یہ شخص چاہتا ہے کہ وہ اسے طلاق دے دے جب کہ والد کہہ رہے ہیں کہ اگر اسے طلاق دی تو تمہیں گھر سے نکال دوں گا ،آیا ایسے شخص کے نکاح کا کیا حکم ہے؟ طلاق  کس طرح دے سکتا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں زبردستی اور رضامندی کے بغیر شادی کرانے سے مراد اگر یہ ہے کہ مذکورہ شخص کی شادی والد صاحب نے دو شرعی  گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کے ساتھ نکاح کروادیا تھا اور لڑکے نے قبول بھی کرلیا تھا تو نکاح منعقد ہوگیا تھا،لیکن اگر مراد یہ ہے کہ والد صاحب نے خود نکاح کرادیا اور لڑکے نے قبول نہیں کیا تھا تو نکاح منعقد ہی نہیں ہوا تھا۔

نکاح منعقد ہونے کی صورت میں اگر کوئی شرعی عذر نہ ہو تو لڑکے کو چاہیے کہ والد کی اطاعت کرتے ہوئے ساتھ رہنے پر رضامند ہوجائے،لیکن اگر وہ ساتھ رہنا نہیں چاہتا تو اس کو طلاق دینے کاحق حاصل ہے ۔

طلاق دینے کا طریقہ یہ ہے کہ  ایک طلاق رجعی دے کر چھوڑ دیا جائے،مثلاً بیوی سے یہ کہہ دے  "میں نے تمھیں ایک طلاق دی"۔

فتاوی شامی میں ہے:

"أن ‌نكاح ‌المكره صحيح كطلاقه وعتقه مما يصح مع الهزل، ولفظ المكره شامل للرجل والمرأة فمن....."

(كتاب النكاح،3/ 21،ط:سعید)

روح المعانی میں ہے:

"العقوق لأحد الوالدين هو أن يؤذيه بما لو فعله مع غيره كان محرما من جملة الصغائر فينتقل بالنسبة إليه إلى الكبائر أو أن يخالف أمره أو نهيه فيما يدخل منه الخوف على الولد من فوت نفسه أو عضو من أعضائه ما لم يتهم الوالد في ذلك أو أن يخالفه في سفر يشق على الوالد وليس بفرض على الولد أو في غيبة طويلة فيما ليس بعلم نافع ولا كسب فيه أو فيه وقيعة في العرض لها وقع."

(سورة الإسراء،8/ 58،ط:دار الكتب العلمية)

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"أما مخالفة أمره ونهيه فيما لا يدخل على الولد فيه ضرر بالكلية وإنما هو مجرد إرشاد للولد فلا تكون عقوقا۔۔۔«وذكر بعض المحققين» أن العقوق فعل ما يحصل منه لهما أو لأحدهما إيذاء ليس بالهين عرفا. ويحتمل أن العبرة بالمتأذي لكن لو كان الوالد مثلا في غاية الحمق أو سفاهة العقل فأمر أو نهى ولده بما لا يعد مخالفته فيه في العرف عقوقا لا يفسق ولده بمخالفته حينئذ لعذره وعليه فلو كان متزوجا بمن يحبها فأمره بطلاقها ولو لعدم عفتها فلم يمتثل أمره لا إثم عليه، نعم الأفضل طلاقها امتثالا......وكذا سائر أوامره التي لا حامل لها إلا ضعف عقله وسفاهة رأيه ولو عرضت على أرباب العقول لعدوها متساهلا فيها ولرأوا أنه لا إيذاء بمخالفتها."

(سورة الإسراء،8/ 59، ط: دار الکتب العلمية بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101516

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں