بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زبردستی طلاق اور نکاح کا حکم


سوال

 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں

1۔ اگر زور زبردستی کسی کا نکاح کسی سے کروادیا جائے تو کیا یہ نکاح منعقد ہوجاتا ہے اگر ہوجاتا ہے تو اس کی عقلی توجیہ بیان کردیجیے؟

2۔ اور دوسرا زور زبردستی کسی کو طلاق دینے پر مجبور کیا جائے تو اس کا شرعی حکم کیا ہوگا قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح کریں۔

جواب

1۔ عاقل بالغ لڑکے اور لڑکی پر نکاح کے معاملہ میں جبر اور زبردستی کرنا درست نہیں، والدین کو چاہیے کہ نکاح کے معاملہ میں اپنے بچوں کی پسند کی بھی رعایت کریں، لیکن اولاد کو بھی چاہیے کہ والدین کو اپنا خیرخواہ سمجھتے ہوئے ان کی پسند کو  اپنی پسند پر ترجیح دیں ؛ اس لیے کہ عموماً والدین اور بزرگوں کے طے کردہ رشتے آگے چل کر خوش گوار ثابت ہوتے ہیں، ممکن ہے کہ ایک چیز فی الحال ناپسند ہو لیکن بعد میں وہ خیر اور محبت کا ذریعہ بن جائے، اور جو رشتے وقتی جذبات سے مغلوب ہوکر کیے جاتے ہیں تجربہ شاہد ہے کہ عموماً وہ ناپائیدار ہوتے ہیں، وقتی پسند بعد میں ناپسندیدگی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

بہر حال اگر والدین کے اصرار پر  لڑکے اور لڑکی نے زبانی طور پر اجازت دے دی اور ایجاب قبول کر لیا تو نکاح منعقد ہو جاتا ہے۔ 

2۔ اگر زور زبردستی سے مراد اکراہِ شرعی ہے یعنی جان سے مارنے یا کسی عضو کے تلف کرنے کی دھمکی دے کر طلاق دینے پر مجبور کیا گیا ہو اور اسے اس بات کا خوف بھی ہو کہ دھمکی دینے والا وہ کام کر بھی سکتا ہے جو وہ بول رہا ہے  تو اس صورت میں اگر اس نے زبان سے طلاق کے الفاظ کہہ دیے تو طلاق واقع ہوجائے گی، لیکن اگر زبان سے طلاق کے الفاظ نہیں کہے  بلکہ صرف طلاق کے الفاظ لکھے یا لکھے ہوئے طلاق نامے پر دستخط کیے تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔

لیکن اگر زور زبردستی سے مراد یہ ہے کہ ماں یا بھائی  وغیرہ کے بہت زیادہ اصرار اور ضد کرنے، بار بار مطالبہ کرنے اور اخلاقی دباؤ کی وجہ سے تنگ آکر  نہ چاہتے ہوئے   طلاق کے الفاظ لکھیں ہوں یا طلاق نامے پر صرف دستخط کیے ہوں تو طلاق واقع ہوجائے گی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"لايجوز ‌نكاح ‌أحد على بالغة صحيحة العقل من أب أو سلطان بغير إذنها بكرا كانت أو ثيبا فإن فعل ذلك فالنكاح موقوف على إجازتها فإن أجازته؛ جاز، و إن ردته بطل، كذا في السراج الوهاج."

(كتاب النكاح، الباب الرابع في الأولياء،1/ 287، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌ولا ‌تجبر ‌البالغة البكر على النكاح) لانقطاع الولاية بالبلوغ"۔

(کتاب النکاح، باب الولی، ص:58، ج:3، ط:سعید)

ردالمحتار میں ہے:

"فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا، كذا في الخانية۔"

( کتاب الطلاق، رکن الطلاق 3/ 236 ط:سعید)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (7 / 175):

"بَيَانُ أَنْوَاعِ الْإِكْرَاهِ فَنَقُولُ: إنَّهُ نَوْعَانِ: نَوْعٌ يُوجِبُ الْإِلْجَاءَ وَالِاضْطِرَارَ طَبْعًا كَالْقَتْلِ وَالْقَطْعِ وَالضَّرْبِ الَّذِي يُخَافُ فِيهِ تَلَفُ النَّفْسِ أَوْ الْعُضْوِ قَلَّ الضَّرْبُ أَوْ كَثُرَ، وَمِنْهُمْ مَنْ قَدَّرَهُ بِعَدَدِ ضَرَبَاتِ الْحَدِّ، وَأَنَّهُ غَيْرُ سَدِيدٍ؛ لِأَنَّ الْمُعَوَّلَ عَلَيْهِ تَحَقُّقُ الضَّرُورَةِ فَإِذَا تَحَقَّقَتْ فَلَا مَعْنَى لِصُورَةِ الْعَدَدِ، وَهَذَا النَّوْعُ يُسَمَّى إكْرَاهًا تَامًّا، وَنَوْعٌ لَايُوجِبُ الْإِلْجَاءَ وَالِاضْطِرَارَ وَهُوَ الْحَبْسُ وَالْقَيْدُ وَالضَّرْبُ الَّذِي لَايُخَافُ مِنْهُ التَّلَفُ، وَلَيْسَ فِيهِ تَقْدِيرٌ لَازِمٌ سِوَى أَنْ يَلْحَقَهُ مِنْهُ الِاغْتِمَامُ الْبَيِّنُ مِنْ هَذِهِ الْأَشْيَاءِ أَعْنِي الْحَبْسَ وَالْقَيْدَ وَالضَّرْبَ، وَهَذَا النَّوْعُ مِنْ الْإِكْرَاهِ يُسَمَّى إكْرَاهًا نَاقِصًا.

وَأَمَّا شَرَائِطُ الْإِكْرَاهِ فَنَوْعَانِ: نَوْعٌ يَرْجِعُ إلَى الْمُكْرِهِ وَنَوْعٌ يَرْجِعُ إلَى الْمُكْرَهِ.

(أَمَّا) الَّذِي يَرْجِعُ إلَى الْمُكْرِهِ فَهُوَ أَنْ يَكُونَ قَادِرًا عَلَى تَحْقِيقِ مَا أَوْعَدَ؛ لِأَنَّ الضَّرُورَةَ لَا تَتَحَقَّقُ إلَّا عِنْدَ الْقُدْرَةِ،'' والَّذِي يَرْجِعُ إلَى الْمُكْرَهِ فَهُوَ أَنْ يَقَعَ فِي غَالِبِ رَأْيِهِ وَأَكْثَرِ ظَنِّهِ أَنَّهُ لَوْ لَمْ يُجِبْ إلَى مَا دُعِيَ إلَيْهِ تَحَقَّقَ مَا أُوعِدَ بِهِ".

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي البحر: أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق ؛ لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة، ولا حاجة هنا، كذا في الخانية."

(رد المحتار: ٣/ ٢٣٦، سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101135

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں