بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زبردستی طلاق دلوانے کا حکم


سوال

میر ےشوہر  ۔۔۔ کے 2 بیٹے  ،1 بیٹی ہے جو کہ  شادی شدہ ہے،پہلی بیوی فوت ہوگئی تھی، میرے ساتھ شادی  2014-10-24 کو ہوئی ،میرا نام  ۔۔۔ ہے  ، میرے سوتیلے  بیٹے  شادی کے 2 سال بعد آئے اور آتے   ہی باپ کو ٹارچرکرتے کہ بیوی  کو طلاق دے،اور گھر ہمارے نام لکھ ،میرا شوہر  مجھے طلاق دینا نہیں چاہتاتھا بیٹوں نے کہا طلاق لکھ دو  ورنہ تم کو  ماردیں گے یا خود کوماردیں گے،بڑے بیٹے نے اپنے سر میں زور سے ڈنڈے مارے، خون نکلا تو باپ پریشان ہو گیا کہ مرنہ جائے اس لیے مجبور ہوگیا ،بیٹے طلاق نامہ لےآئے، زبردستی طلاق لکھوا کر   بھیجدیاجو مجھے نہیں ملا ،کسی اور کے گھر پہنچا، انھوں نے بتایا کہ ہم نے    t.c.s کو اسی وقت واپس کردی ،میرے شوہر نے قرآن اٹھاکر   قسم اٹھا ئی تھی کہ میں تم کو کبھی نہیں چھوڑوں گا،میرے بیٹے ذہنی  مریض ہیں، مجھے بیٹے  طلاق دینے پر مجبور کررہے ہیں میں، تمھار ے ساتھ ہوں میر ے شوہر کے بیٹے نے2020-9-13 فائر کئے ہم دونوں پر،ہم بال    بال بچ گئے، اس کے بعد  با پ کو اور مجھے منہ  پر  جوتے مارے، اور مجھے جلانے  کی  کوشش کی، اور گلے اور ہاتھ پر زور سے مارا۔

مولانا صاحب میرا کیس کورٹ میں چل رہاہے کہ ایک وقت میں تین طلاق جبراً دی گئی ہے ،جو مجھے قبول نہیں ہے 2023- 8-  20 کو 7 دن بعد ملا ہے ،خدارا مجھے فتوی لکھ کر  ارسال کرے ،میری زندگی تباہ ہو نے سے بچائیں ۔

مولانا صاحب ،میں نے   پڑھا ہے قران پاک میں لکھاہے کہ  ایک وقت میں 3 طلاقیں طلاق نامےپرایک  سمجھی جاتی ہے اور جبراًلکھی ہوئی کی اہمیت نہیں ہے،اور قرآن میں لکھا ہے 2 گواہ اپنوں میں سے ہوں مولانا صاحب گواہ نہ مجھے جانتاہے نہ میرے شوہر کو راستے سے       پکڑ کر دوگواہ بیٹے نے لکھواکر بھیجاہے جو میرے شوہر کو میری ایڈرس  کا بھی پتہ نہیں۔

جواب

واضح رہے کہ کسی طلاق نامہ پر زبر دستی  دستخط کرانے یا طلاق لکھوانے سے طلاق نہیں ہوتی ،زبردستی اور جبرسے مراد "اکراہ شرعی " ہے ، یعنی طلاق لکھوانے یا طلاق نامے پر دستخط کرانے والے جان سے مارنے  کی دھمکی دے یا ایسا تشدد کرے کہ جس سے عضوتلف ہو  جانے  کا اندیشہ ہو ،تو اگر ایسی حالت میں مجبور  آدمی طلاق نامے پر دستخط کردے یاطلاق نامہ لکھوادے ،لیکن زبان سے طلاق نہ دے تو یہ طلاق  واقع نہیں ہوتی ۔

لہذا صورت مسئولہ میں اگر سائلہ اوراس کے شوہر پر، شوہر کے بیٹوں  نے ایسا تشدد کیا یاجان سے مارنے یا ہاتھ پپر توڑنے  کی دھمکی دی اور سائلہ اور اس کے شوہر  کو لگ رہاتھا کہ واقعی یہ دھمکی پر عمل کر ے  گا اور پھر اس کو  مد  نظر رکھتے ہوے سائلہ کے شوہر نے طلاق  نامہ پر دستخط کردیے تو یہ طلاق واقع نہیں ہوئی بشرطیکہ  زبان سے طلاق نہ دی ہو  اور اگر ایسا خطرہ نہیں تھا تو بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہو جائیں گی اور اگر زبان سے طلاق دے دی تو پھر یہ  جبر ی طلاق بھی واقع ہو جائے گی نیز سائلہ کہ یہ کہنا کہ قرآن میں یہ لکھا ہے  کہ  تین طلاقیں ایک سمجھی جاتی ہیں  یہ غلط ہے ،قرآن وسنت ،جمہورصحابہ کرام رضی اللہ عنھم،تابعین وتبع تابعین ،ائمہ مجتھدین بشمول ائمہ اربعہ ،سب کے نزدیک  تین طلاقیں ایک ساتھ ایک مجلس میں دی جائیں یا الگ الگ  دی   جائیں بہر صورت تینوں واقع جاتی ہیں ۔

   قرآن کریم میں ہے :

"﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ﴾." [البقرة: 229]

ترجمہ:وہ طلاق دو مرتبہ کی ہے، پھر خواہ رکھ لینا قاعدہ کے موافق خواہ  چھوڑ دینا  خوش عنوانی کے ساتھ۔ (بیان القرآن)

         اس آیت  کے شانِ نزول میں مفسرین حضرات یہ بیان کرتے ہیں  کہ ابتدائے اسلام میں لوگ بغیر کسی تعداد اور گنتی کے طلاق دیا کرتے تھے،  مرد جب اپنی بیوی کو  طلاق دیتا  اور اس کی عدت مکمل ہونے کا  وقت قریب ہوتا  تو وہ  رجوع کرلیتا  اور پھر طلاق دے کر دوبارہ رجوع کرتا، اس سے  ان کا مقصد  اس عورت کو تکلیف دینا ہوتا تھا، جس پر قرآنِ کریم کی  یہ آیت نازل ہوئی۔ (2)

         یہی وجہ ہے کہ امام بخاری جیسے جلیل القدر  محدث  نے اسی آیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنی  کتاب "صحیح البخاری" میں   یہ باب قائم کیا   " باب من أجاز الطلاق  الثلاث"(3)

 امام قرطبی رحمہ اللہ، امام بخاری  رحمہ اللہ کے اس طرز پر تبصرہ کرتے ہوئے  لکھتے ہیں : "اس سے معلوم ہوتا ہے کہ  مرد کو تین طلاق کا اختیار دینا شریعت کی جانب سے ایک گنجائش ہے ، جو شخص اپنے اوپراز خود تنگی کرے  اس پر یہ حکم لازم ہوجائےگا، ہمارے علماء فرماتے ہیں   کہ فتویٰ دینے والے  ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ  ایک ساتھ دی گئی تینوں  طلاقیں واقع ہوتی ہیں، یہ جمہور سلف کا قول ہے"۔ (4)

         امام ابو بکر جصاص رحمہ اللہ  لکھتے ہیں کہ آیت   ﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ﴾ ایک ساتھ دی   گئی تین طلاقوں کے واقع ہونے پر دلالت کرتی ہے ، ا گرچہ ایسا کرنا باعث گناہ ہے۔ (5)

  1. تفسير الألوسي = روح المعاني میں ہے:

"فقد أخرج مالك والشافعي والترمذي رضي الله تعالى عنهما وغيرهم. عن عروة قال: كان الرجل إذا طلق امرأته ثم ارتجعها قبل أن تنقضي عدّتها كان ذلك له وإن طلقها ألف مرة، فعمد رجل إلى امرأته فطلقها حتى إذا ما شارفت انقضاء عدّتها ارتجعها ثم طلقها ثم قال: والله لا آويك إليّ ولا تخلين أبدا، فأنزل الله تعالى الآية."

(سورة البقرأة ،٥٣٠/١، ط: دار الکتب العلمیه):

  1. صحيح البخاري  میں ہے:

"باب من أجاز طلاق الثلاث لقول الله تعالى: {الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان}."[البقرة: 229]

‌‌(باب: من أجاز طلاق الثلاث،٢٠١٣/٥،ط : دار ابن كثير)

4:تفسير القرطبي میں ہے:

"ترجم البخاري على هذه الآية" باب ‌من ‌أجاز ‌الطلاق ‌الثلاث بقوله تعالى: الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان" وهذا إشارة منه إلى أن هذا التعديد إنما هو فسخه لهم، فمن ضيق على نفسه لزمه : قال علماؤنا: ‌واتفق ‌أئمة ‌الفتوى على لزوم إيقاع الطلاق الثلاث في كلمة واحدة، وهو قول جمهور السلف."

‌‌[سورة البقرة (2): آية 229،،١٢٨/٣،ط : دار الكتب المصرية]

5:أحكام القرآن للجصاص میں ہے:

"قال أبو بكر: قوله تعالى: {الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان} الآية، ‌يدل ‌على ‌وقوع ‌الثلاث معا مع كونه منهيا عنها، وذلك; لأن قوله: {الطلاق مرتان} قد أبان عن حكمه إذا أوقع اثنتين بأن يقول أنت طالق أنت طالق في طهر واحد; وقد."

(‌‌ذكر الحجاج لإيقاع الطلاق الثلاث معا،٤٦٧/١،ط : دار الكتب العلمية)

 ارشادِ ربانی ہے:

﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ [البقرة: 230]

ترجمہ:"اگر بیوی کو تیسری طلاق دے دی  تو جب وہ عورت دوسرے  نکاح  نہ کرلے اس وقت تک وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی۔ (بیان القرآن)

         امام شافعی رحمہ اللہ  " کتاب الام" میں  لکھتے  ہیں قرآن پاک اس بات پر دلالت کرتا ہے  جو شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے  وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب  تک کہ وہ دوسرے شوہر کے پاس سے نہ آجائے"

الأم للشافعي رحمہ اللہ میں ہے:

"(قال الشافعي): والقرآن يدل والله أعلم ‌على ‌أن ‌من ‌طلق زوجة له دخل بها أو لم يدخل بها ثلاثا لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره"

(‌‌إباحة الطلاق,‌‌طلاق التي لم يدخل بها،١٩٦/٥،ط : دار الفكر)

 صحیح البخاری  میں ہے:

" أن عائشة، أخبرته: أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن رفاعة طلقني فبت طلاقي، وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي، وإنما معه مثل الهدبة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته."

‌‌( باب: من أجاز طلاق الثلاث،٢٠١٤/٥،ط : دار ابن كثير)

    "     حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ  " فبت طلاقي " کی تشریح میں لکھتے ہیں  کہ  اس میں دوسرا احتمال یہ ہے کہ  انہوں نے اس عورت کو ایسی طلاق دی تھی   جس کے بعد تعلق بالکل ختم ہوجاتا ہے ، اوروہ اس صورت میں ہوتا ہے جب ایک ساتھ یا الگ الگ  تین طلاقیں دی جائیں ،  اس احتمال کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ  امام بخاری رحمہ اللہ   نے ''کتاب الادب'' میں دوسرے طریق سے ذکر کیا ہے  " طلقنی آخر ثلاث تطلیقات"

 فتاوی شامی میں ہے:

"الإكراه (هو لغة حمل الإنسان على) شيء يكرهه وشرعا (فعل يوجد من المكره فيحدث في المحل معنى يصير به مدفوعا إلى الفعل الذي طلب منه) وهو نوعان تام وهو الملجئ بتلف نفس أو عضو أو ضرب مبرح وإلا فناقص وهو غير الملجئ. (وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثاني (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال (و) الرابع: (كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله) إما (لحقه) كبيع ماله (أو لحق) شخص (آخر) كإتلاف مال الغير (أو لحق الشرع) كشرب الخمر والزنا۔۔۔۔ وفيه بعد اسطر(وصح نكاحه وطلاقه وعتقه) لو بالقول لا بالفعل كشراء قريبه ابن كمال."

(كتاب الاكراه،١٢٨/٦،ط:سعید)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  میں ہے:

"قال - رحمه الله - (وشرطه قدرة المكره على تحقيق ما هدد به سلطانا كان أو لصا أو خوف المكره وقوع ما هدد به) يعني شرط الإكراه الذي هو فعل كما تقدم؛ لأن الإكراه اسم لفعل يفعله الإنسان بغيره فينتفي به رضاه أو يفسد به اختياره مع بقاء الأهلية ولا يتحقق ذلك إلا من القادر عند خوف المكره؛ لأنه يصير به ملجئا وبدون ذلك لا يصير ملجئا وما روي عن الإمام أن الإكراه لا يتحقق إلا من السلطان فذلك محمول على ما شهد في زمانه من أن القدرة والمنعة منحصرة في السلطان وفي زمانهما كان لكل مفسد له قوة ومنعة لفساد الزمان فأفتيا على ما شهدا وبه يفتى؛ لأنه ليس فيه اختلاف يظهر في حق الحجة وفي المحيط وصفة المكره وهو أن يغلب على ظنه أنه يوقع ذلك به لو لم يفعل، ولو شك أنه لا يفعل ما توعد به لم يكن مكرها؛ لأن غلبة الظن معتبرة عند فقد الأدلة اهـ."

(کتاب الاکراہ،شرط الاکراہ،دارالکتاب الاسلامی)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"وفي البحر أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق ؛لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا كذا في الخانية."

(کتاب الطلاق،مطلب في الإكراه على التوكيل بالطلاق والنكاح والعتاق،٣٣٦/٣،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(قوله كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة. وإن علق طلاقها بمجيء الكتاب بأن كتب: إذا جاءك كتابي فأنت طالق فجاءها الكتاب فقرأته أو لم تقرأ يقع الطلاق كذا في الخلاصة ط."

(کتاب الطلاق،مطلب فی الطلاق بالکتابۃ،٢٤٦/٣،ط:سعید)

شرح النووي على مسلم یں ہے:

"وقد اختلف العلماء فيمن قال لامرأته أنت طالق ثلاثا فقال الشافعي ومالك وأبو حنيفة وأحمد ‌وجماهير ‌العلماء ‌من ‌السلف والخلف يقع الثلاث."

‌‌(كتاب الطلاق،باب طلاق الثلاث،٧٠/١٠،ط: دار إحياء التراث العربي)

 عمدۃ القاری  میں ہے:

"ومذهب جماهير العلماء من التابعين ومن بعدهم منهم الأوزاعي والنخعي والثوري وأبو حنيفة وأصحابه ومالك وأصحابه ومالك وأصحابه والشافعي وأصحابه وأحمد وأصحابه وإسحاق وأبو ثور وأبو عبيد وآخرون كثيرون على أن من طلق امرأته ثلاثا وقعن ولكنه يأثم وقالوا من خالف فيه فهوشاذ مخالف لاهل السنة وانما تعلق به اهل البدع ومن لا يلتفت اليه لشذوذه عن الجماعة اللتى لا يجوز عليهم التواطؤ على تحريف الكتاب والسنة."

‌‌(كتاب الطلاق،باب من أجاز طلاق الثلاث لقول الله تعالى،٢٣٣/٢٠،ط: دار إحياء التراث العربي)

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

"(وأما البدعي) فنوعان بدعي لمعنى يعود إلى العدد وبدعي لمعنى يعود إلى الوقت (فالذي) يعود إلى العدد أن يطلقها ثلاثًا في طهر واحد أو بكلمات متفرقة أو يجمع بين التطليقتين في طهر واحد بكلمة واحدة أو بكلمتين متفرقتين فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيًا" .

(کتاب الطلاق، الطلاق البدعی،٣٤٩/١، ط: رشيدية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ".

(کتاب الطلاق ،فصل :حکم الطلاق البائن،١٨٧/٣، ط:سعید)

فتاویٰ شامی  میں ہے:

 "و ذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث."

(‌‌كتاب الطلاق‌‌،ركن الطلاق،٢٣٣/٣، ط: دار الفكر)

فقط الله أعلم  


فتوی نمبر : 144502100454

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں