بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسلحے كے زور پر طلاق لينے كا حكم


سوال

کیا زبردستی اسلحے کے زور پر طلاق دینے سے طلاق ہو جائے گی؟

جواب

اگر اکراہِ شرعی ہے، یعنی جان سے مارنے یا کسی عضو کے تلف کرنے کی دھمکی دے کر طلاق دینے پر مجبور کیا گیا ہو اور اسے اس بات کا  غالب اندیشہ ہو کہ دھمکی دینے والا وہ کام کر بھی سکتا ہے جو وہ بول رہا ہے  تو اس صورت میں اگر اس نے زبان سے طلاق کے الفاظ کہہ دیے تو طلاق واقع ہوجائے گی، لیکن اگر زبان سے طلاق کے الفاظ نہیں کہے،  بلکہ صرف طلاق کے الفاظ لکھے یا لکھے ہوئے طلاق نامے پر دستخط کیے تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔

لیکن اگر زور زبردستی سے مراد یہ ہے کہ کسی کے بہت زیادہ اصرار اور ضد کرنے، بار بار مطالبہ کرنے اور اخلاقی دباؤ کی وجہ سے تنگ آکر  نہ چاہتے ہوئے طلاق دے دی تو اس صورت میں چاہے زبان سے کہا ہو یا  طلاق کے الفاظ لکھے ہوں یا طلاق نامے پر صرف دستخط کیے ہوں، تمام صورتوں میں طلاق واقع ہوجائے گی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ویقع طلاق کلّ زوج بالغ عاقل ولو عبداً أو مکرهاً فإن طلاقه صحیح .... وفي البحر: أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لاتطلق؛ لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة، ولا حاجة هنا، كذا في الخانية".

[فتاویٰ شامی،جلد:۳،صفحہ: ۲۳۶، مطلب في الإکراہ، ط:سعید]

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201238

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں