بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زبان سے غلطی سے نازیبا کلمات نکل جائیں تو کیا حکم ہے ؟


سوال

1.اگر کسی کی زبان سے غلطی سے کفریہ الفاظ نکل جائیں تو اسے ایمان تو نہیں خراب ہوتا ۔میں گھر میں والدہ کو دوسرے کلمے کا ترجمہ پڑھا رہاتھا ،میری والدہ شروع سے گاؤں کی تھی، انہوں نے تعلیم نہیں حاصل کی ،ان کی عمر پچاس سے کچھ اوپر ہو گئی ہے ،میں نے انہیں دوسرے کلمہ کا ترجمہ پڑھا رہا تھا ،اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ،وہ اکیلا ہے ،وہ میرے پیچھے پیچھے پڑرہی تھیں ،آرام آرام سے ،جب اکیلا ہے میں نے بولا ،انہیں سمجھ نہیں آئی ،انہوں نے ادھر غلط الفاظ پڑھ دیا، انہوں نے مجھ سے پوچھا کیا ویلا ہے،میں نے کہا نہیں اکیلا ہے ،پھر انہوں نے صحیح پڑھا ۔انہوں نے جو غلطی سے یہ غلط الفاظ پڑھے ،اس سے ان کے ایمان پہ کوئی فرق تو نہیں پڑا ہوگا ؟

2.میں تبلیغ میں جاتا رہتا ہوں ،میں گھر میں بتاتا ہوں ،اجازت لیتا ہوں ،بعض دفعہ گھر والے منع کر دیتے ہیں کہ نہیں جانا ،ان کے منع کرنے کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ بعض دفعہ گھر میں مالی حالات نہیں ٹھیک ہوتے ،ابھی میں جا رہا تھا گھر والوں نے کہا نہیں جانا ،میں نے کہا اس طرح نہیں کہتے، گناہ ہوتا ہے ،تو والدہ کہتی ہیں گناہ کرنے پر بھی تم ہی مجبور کرتے ہو۔ اللہ کو پتہ ہے ،ہمارے حالات نہیں ٹھیک ۔

3.اور میں نے انہیں بتایا کہ میں اجتماع کے لئے جا رہا ہوں ،ادھر خدمت کے لئے تو انہوں نے نے ڈانٹا کہا :بکواس کرتے ہو، گھر میں تمہارے والد کی طبیعت نہیں ٹھیک ہے، ان کی خدمت نہیں کر رہے  اور باہر جا کر تم نے خدمت کرنی ہے۔اس سے ان کے ایمان پر کوئی فرق تو نہیں پڑا ہوگا ۔

4.میں گھر میں بات کر رہا تھا ،دینی کتابوں کے بارے میں بات ہو رہی تھی ،میں کہہ رہا تھا یہ کتابیں  اتنے کی ہیں ،میری بات نظر انداز ہوئی تو میں نے کہہ دیا میرے منہ سے نکل گیا کہ میں کیا بکواس کر رہا ہوں کہ یہ کتابیں اتنی کی ہیں،مجھے بعد میں احساس ہوا کہ  گستاخی تو نہیں ہوگی میرا ایمان نہ خراب ہوگیا ہو۔

جواب

۱۔ صورت مسئولہ میں سائل کی والدہ  نے الفاظ نہ سمجھنے کی وجہ سے اکیلا کو جو ویلا کہا ہے اس سے ایمان پر کوئی فرق نہیں پڑا ۔

۲۔ صورت مسئولہ میں سائل کی والدہ کا سائل کو تبلیغ میں جانے سے منع کرنا اور پھر باہمی گفتگو میں یہ کہنا کہ :’’گناہ کرنے پر بھی تم ہی مجبور کرتے ہو‘‘اس سے بھی کفر کا حکم نہیں لگے گا، البتہ زبان سے ایسے الفاظ نہیں نکالنے چاہیے۔

۳۔نیز سائل کی والدہ کا سائل کو یہ کہنا کہ :’’بکواس کرتے ہو، گھر میں تمہارے والد کی طبیعت نہیں ٹھیک ہے، ان کی خدمت نہیں کر رہے  اور باہر جا کر تم نے خدمت کرنی ہے ‘‘، اس طرح کے الفاظ سے بھی کفر لازم نہیں آئے  گا۔البتہ ایسے الفاظ سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔

۴۔سائل کا اپنے آپ سے مخاطب ہوکر یہ کہنے :’’میں کیا بکواس کررہا ہوں ، یہ کتابیں اتنے کی ہیں‘‘،سے بھی ایمان ضائع نہیں ہوگا۔

البتہ سائل کو ایسی گفتگو سے جس سے شبہات پیدا ہوتے ہوں  یا جس سے گھریلو ماحول خراب ہو اور سائل کی وجہ سے دوسروں کی زبان سے نازیباکلمات نکلیں ، ایسی گفتگو سے اجتناب کرنا چاہیے ،ا ور اپنی زبان سے کلمات نکالنے سے قبل سوچ سمجھ کر کلام کرنا چاہیے۔نیز والدین کی خدمت کو دیگر امور پر فی الوقت ترجیح دینی چاہیے۔

 فتاویٰ شامی میں ہے:

"ومن تکلم بها مخطئًا أو مکرهًا لایکفر عند الکل".

(باب المرتد ،ج: 4، ص: 224، ط: سعید)

و فیہ ایضاً: 

"(وشرائط صحتها العقل) والصحو (والطوع) فلا تصح ردة مجنون، ومعتوه وموسوس، وصبي لايعقل وسكران ومكره عليها، وأما البلوغ والذكورة فليسا بشرط بدائع".

قال ابن عابدین رحمه الله:

قال في البحر والحاصل: أن من تكلم بكلمة للكفر هازلاً أو لاعبًا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده، كما صرح به في الخانية. ومن تكلم بها مخطئًا أو مكرهًا لايكفر عند الكل، ومن تكلم بها  عامدًا عالمًا كفر عند الكل، ومن تكلم بها اختيارًا جاهلاً بأنها كفر ففيه اختلاف. اهـ".

باب المرتد ،ج: 4، ص: 224، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100662

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں