بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ذاتی پلاٹ میں بھائیوں کا حصہ


سوال

ہم مشترکہ خاندان ،ماں باپ،ایک بہن،چار شادی شدہ بھائی اور ان کے بیوی بچے اور دو غیر شادی شدہ بھائی ایک گھر میں شریک رہتے اور کھاتے پیتے ہیں۔ تقریبًا  پچھلے 20 سال سے والد کما نہیں رہے، بلکہ ہم دو بھائی کما رہے ہیں۔میرا بڑا بھائی اسکول ٹیچر ہے جس کی تنخواہ تقریبًا 30000 روپے ہے اور میں سعودیہ عربیہ میں کمپنی ملازم ہوں۔ ویزے  کے پیسے بھی میں نے خود کمائے تھے اور اب ہر مہینہ خرچہ بھی بڑے بھائی کی تنخواہ کے تقریبًا ڈبل روپیوں میں ارسال کررہا ہوں۔ اپنے شادی کا پورا خرچہ بھی خود اٹھایا۔ دو چھوٹے بھائیوں کی شادیوں کا خرچہ ،مہر سمیت بھی خود اٹھایا۔ اب وہ چھوٹے بھائی بال بچہ دار ہیں اور ابھی تک ان کو اچھے اچھے کالجز اور یونیورسٹیز سے پڑھایا اور پڑھا رہا ہوں۔ ایک پی ایچ ڈی سٹوڈنٹ ہے اور دوسرا بی ایس کا اور دونوں بال بچہ دار ہیں۔ ان سب خرچوں کے علاوہ اگر میں کچھ رقم بچت کرکے پلاٹ خرید لوں تو اس میں میرے باقی بھائیوں کا حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ اگر بنتا ہے تو کون کون سے بھائی کا؟ کمانے والے بڑے بھائی کا یا تمام شادی شدہ بھائیوں کا یا غیر شادی شدہ بھائیوں کا ؟ یاد رہے چھوٹے دو بھائیوں کی تعلیم کی ذمہ داری بھی میں اٹھا رہا ہو۔ایک بی ایس اور ایک ایف ایس سی سٹوڈنٹ ہے۔

جواب

واضح رہے کہ ہر شخص  اپنے  مال و جائیداد کا    تنہا مالک اور اس میں خود مختار  ہے، اور اس کو حق ہے کہ اپنی ملک میں  جیسے چاہے تصرف کرے ،لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں سائل نے اپنے بہن بھائیوں کی اب تک جو پرورش اور مالی معاونت کی  وہ  اس کی طرف سے محض تبرع اور احسان تھا  جس پر  وہ عند اللہ اجر و ثواب کا مستحق ہے۔

اب اگر وہ   اپنے مال سے خاص اپنے  لیے کوئی جائیداد وغیرہ خریدنا چاہتا ہے تو وہ ہی اس کا مکمل مالک ہوگا،اس میں دیگر  بہن بھائیوں کا کوئی حصہ نہیں ہوگا، نہ ہی کسی کو مطالبے کا حق ہوگا، نہ ہی شادی شدہ کو نہ غیر شادی شدہ کو۔    ہاں  سائل اگر اپنی خوشی سے اس میں اپنے کسی یا سب بھائی بہن کو حصہ دینا چاہے تو  اس کو اس  کا اختیار ہے، اس پر اس میں کوئی جبر نہیں۔ البتہ  اس صورت میں   چوں کہ یہ شرعاً ہبہ ہوگا  اور  "ہبہ"  کے تام ہونے اور ملکیت کا فائدہ دینے کے لیے قبضہ اور تصرف کا مکمل اختیار دینا شرط ہے، لہٰذا جو جائیداد بہن بھائیوں  میں سے کسی کو مکمل قبضہ اور تصرف کے اختیار کے ساتھ  دی جائے تو وہ جائیداد اس کی ملکیت میں آجائے گی، اور دینے والے  (سائل) کے انتقال کے بعد وہ اس کا ترکہ شمار نہیں ہوگی، لیکن جو جائیداد صرف زبانی طور پر ہبہ کی ہو اور مکمل قبضہ اور تصرف کا اختیار  نہ دیا ہو تو وہ بدستور دینے والے کی ملکیت میں رہے گی اور اس کے انتقال کے بعد اس کا ترکہ شمار ہوکر تمام ورثاء میں ضابطہ شرعی کے موافق تقسیم ہوگی۔

وفي بدائع الصنائع:

وَأَمَّا بَيَانُ حُكْمِ الْمِلْكِ وَالْحَقِّ الثَّابِتِ فِي الْمَحِلِّ فَنَقُولُ وَبِاَللَّهِ التَّوْفِيقُ حُكْمُ الْمِلْكِ وِلَايَةُ التَّصَرُّفِ لِلْمَالِكِ فِي الْمَمْلُوكِ بِاخْتِيَارِهِ لَيْسَ لِأَحَدٍ وِلَايَةُ الْجَبْرِ عَلَيْهِ إلَّا لِضَرُورَةٍ وَلَا لِأَحَدٍ وِلَايَةُ الْمَنْعِ عَنْهُ وَإِنْ كَانَ يَتَضَرَّرُ بِهِ إلَّا إذَا تَعَلَّقَ بِهِ حَقُّ الْغَيْرِ فَيُمْنَعُ عَنْ التَّصَرُّفِ مِنْ غَيْرِ رِضَا صَاحِبِ الْحَقِّ وَغَيْرُ الْمَالِكِ لَا يَكُونُ لَهُ التَّصَرُّفُ فِي مِلْكِهِ مِنْ غَيْرِ إذْنِهِ وَرِضَاهُ إلَّا لِضَرُورَةٍ وَكَذَلِكَ حُكْمُ الْحَقِّ الثَّابِتِ فِي الْمَحِلِّ عَرَفَ هَذَا فَنَقُولُ لِلْمَالِكِ أَنْ يَتَصَرَّفَ فِي مِلْكِهِ أَيَّ تَصَرُّفٍ شَاءَ سَوَاءٌ كَانَ تَصَرُّفًا يَتَعَدَّى ضَرَرُهُ إلَى غَيْرِهِ أَوْ لَا يَتَعَدَّى.

(بدائع, 6/264)

الفتاوى الهندية (1 / 566):

لَا يَقْضِي بِنَفَقَةِ أَحَدٍ مِنْ ذَوِي الْأَرْحَامِ إذَا كَانَ غَنِيًّا أَمَّا الْكِبَارُ الْأَصِحَّاءُ فَلَا يَقْضِي لَهُمْ بِنَفَقَتِهِمْ عَلَى غَيْرِهِمْ، وَإِنْ كَانُوا فُقَرَاءَ، وَتَجِبُ نَفَقَةُ الْإِنَاثِ الْكِبَارِ مِنْ ذَوِي الْأَرْحَامِ، وَإِنْ كُنَّ صَحِيحَاتِ الْبَدَنِ إذَا كَانَ بِهِنَّ حَاجَةٌ إلَى النَّفَقَةِ كَذَا فِي الذَّخِيرَةِ.

و في الدر المختار:

وَ) شَرَائِطُ صِحَّتِهَا (فِي الْمَوْهُوبِ أَنْ يَكُونَ مَقْبُوضًا.

[رد المحتار علي الدر المختار, ج5, صـ688, ایچ ایم سعید]

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201754

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں