بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ذات بدلنے والے شخص کی امامت اورنسب بدلنے سے متعلق دو روایات کی تحقیق


سوال

 پوچھنا یہ ہے کہ  اگر کوئی شخص اپنی ذات بدلتا ہے تو کیا ایسے شخص کو امام بنانا جائز ہے؟اور کیااس کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے؟ جب کہ احادیث میں آیا ہے کہ ذات بدلنا، باپ بدلنا ہے، اور دوسری جگہ فرمایا، کہ اگر کوئی قومیت بدل کر سید کہلاتا ہے تو اس نے میرے خاندان میں ڈاکا ڈالا ، ان احادیث کا کیا مقام ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اپنی قوم کے علاوہ  کسی غیر قوم  سے اپنا نسب ثابت کرنا فسق  ہے۔ حدیث شریف میں  ایسے شخص پر لعنت فرمائی گئی ہے، چانچہ ارشاد ہے  :

5115 - حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، وَنَحْنُ بِبَيْرُوتَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، أَوِ انْتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ الْمُتَتَابِعَةُ، إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ»

(سنن أبي داود (4 / 330), بَابٌ فِي الرَّجُلِ يَنْتَمِي إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ)

لہٰذا اگر واقعی کوئی امام ایسے فعل کا مرتکب ہو تو اس کو امام بناکر اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہِ  تحریمی ہے، البتہ نماز پڑھنے کی صورت میں نماز ادا ہوجائے گی۔ہاں اگر  نسب کے طور پر کسی قوم کی طرف اپنی نسبت نہ کرے،  بلکہ اپنا درست  نسب ثابت  رکھتے ہوئے کسی قوم سے محبت وغیرہ کے تعلق کے اظہار کے طور پر ان کا نام اپنے نام کے  ساتھ  لگائے یا اس غرض سے ان کی طرف نسبت کرتا ہو تو  یہ مذکورہ بالا ممانعت میں داخل نہیں ہوگا۔

نیز سائل نے جن روایات کا ذکر کیا ہے،  اس میں "ذات بدلنا باپ بدلنا ہے "یہ الفاظ ہمیں کہیں نہیں مل  سکے، البتہ نسب بدلنے پرصحیح احادیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں، چنانچہ بخاری شریف میں ہے کہ جس نے جانتے بوجھتے اپنا نسب اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف کیا تو جنت اس پر حرام ہے۔

"عن سعد رضي الله عنه قال: سمعت النبي صلى الله عليه و سلم يقول: من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام".

(كتاب الفرائض، باب من ادعى إلى غير أبيه (6/ 2485) برقم (6385)،ط. دار ابن كثير ، اليمامة – بيروت، الطبعة الثالثة ، 1407 = 1987)

اسی طرح یہ الفاظ: "اگر کوئی قومیت بدل کر سید کہلاتا ہے تو اس نے میرے خاندان میں ڈاکا  ڈالا"  بھی بعینہ نہیں ملے ، بظاہر بیان کرنے والے نے اپنے الفاظ میں مفہوم وشرح کے  ساتھ اس کو سمجھانے کی کوشش کی ہے، جیسا کہ سوال کے الفاظ سےبھی ظاہر ہورہا ہے، البتہ اس مفہوم کے قریب ایک روایت مشہور ہے کہ : اللہ تعالی لعنت کرے اس شخص پر جو ہم (بنی ہاشم) میں بغیر نسب کے داخل ہو۔ لیکن ملا علی قاری(المتوفى: 1014ھ ـ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ ثابت نہیں، من گھڑت ہے ۔  علامہ سخاوی(902 ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ہمارے شیخ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث پر کوئی کلام نہیں کیا ہے اور اس حدیث کے شواہد موجود ہیں یعنی معنی  و مطلب دوسرے صحیح احادیث سے ثابت ہے ، خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔

"الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة"میں ہے:

"لعن الله الداخل فينا بغير نسب والخارج منا بغير سبب.

قال السخاوي: بيض شيخنا –يعني: العسقلاني- ولم يذكر شيئًا، وله شواهد ثابتة كحديث: إن من أعظم الفري أن يدعي الرجل إلى غير أبيه ... الحديث رواه البخاري، وفي رواية له: من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام. وفي الشفاء ما رواه مصعب عن مالك بن أنس: إن من انتسب إلى بيت النبي عليه الصلاة والسلام -يعني بالباطل- يضرب ضربًا وجيعًا، ويشهر ويحبس حبسا طويلا حتى يظهر توبته؛ لأنه استخفاف بحق النبي عليه الصلاة والسلام انتهى.

والحاصل: أن الحديث موضوع باللفظ الذي تقدم، والله سبحانه أعلم".

(الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة (ص: 281) برقم (361)،ط. دار الأمانة / مؤسسة الرسالة، بيروت) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200171

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں