بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زانی کے لیے مزنیہ کی بیٹی سے شادی کا حکم


سوال

ماجد نے چھ سال سے گھریلو عورت سے دوستی رکھی ہوئی ہے اور زنا بھی کرتا رہا ہے، اب ماجد اپنی مزنیہ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ تو کیا نکاح ہو سکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ حرمتِ مصاہرت  جس طرح نکاح سے ثابت ہوجاتی ہے اسی طرح زنا سے بھی ثابت ہوجاتی ہے، لہذا جس عورت  کے ساتھ کوئی مرد زنا کرلے اس مرد کے لیے مزنیہ (جس سے زنا کیا ہے) کی بیٹی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا، اگر شادی کر بھی لے تو بھی شرعاً یہ نکاح منعقد نہیں ہوگا، اور فوری علیحدگی اختیار کرنا ضروری ہو گا۔

مصنف عبد الرزاق میں ہے:

"عن أبي بكر بن عبد الرحمن بن أم الحكم، أنه قال: قال رجل: يا رسول الله، إني زنيت بامرأة في الجاهلية وابنتها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لاأرى ذلك، ولايصلح ذلك: أن تنكح امرأة تطلع من ابنتها على ما اطلعت عليه منها".

ترجمہ:"ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ میں زمانہ جاہلیت میں ایک عورت سے زنا کرچکا ہوں،  کیا میں اب اس کی لڑکی سے نکاح کرسکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ:  میں اس کو جائز نہیں سمجھتا اور یہ بھی جائز نہیں  ہے کہ تو ایسی عورت سے نکاح کرے جس کی بیٹی کے جسم کے ان حصوں کو تو  دیکھ چکا ہے جو حصے تو بیوی کے دیکھے گا۔"

(کتاب الطلاق، باب الرجل يزني بأخت امرأته،7/ 201، الرقم: 12784، ط: المجلس العلمی، هند)

مصنف ابن أبي شيبہ میں ہے

"عن حجاج، عن أبي هانئ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من نظر إلى فرج امرأة، لم تحل له أمها، ولا ابنتها»".

ترجمہ:"جو شخص کسی عورت کی شرم گاہ کو دیکھے اس پر اس عورت کی ماں اور بیٹی حرام ہوجائیں گی۔"

(کتاب النکاح، باب الرجل يقع على أم امرأته أو ابنة امرأته ما حال امرأته،3/ 480، الرقم: 16235، ط: مکتبة الرشد ریاض)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وتثبت حرمة المصاهرة بالنكاح الصحيح دون الفاسد، كذا في محيط السرخسي. فلو تزوجها نكاحا فاسدًا لاتحرم عليه أمها بمجرد العقد بل بالوطء هكذا في البحر الرائق. وتثبت بالوطء حلالا كان أو عن شبهة أو زنا، كذا في فتاوى قاضي خان. فمن زنى بامرأة حرمت عليه أمها وإن علت وابنتها وإن سفلت، وكذا تحرم المزني بها على آباء الزاني وأجداده وإن علوا وأبنائه وإن سفلوا، كذا في فتح القدير".

( كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم الثاني المحرمات بالصهرية، 1/ 274، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100296

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں