بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

یوٹیوب کے ذریعے تفسیر سیکھنے کا حکم


سوال

میں نے ڈبل ماسٹر کیا ہے ایک کمیسٹری میں اور دوسرا پشتو میں،  لیکن بچپن ہی سے ایک عالم دین بننے کا شوق تھا جو ادھورا رہ گیا،  اب اگر میں قران مجید کا ترجمہ کسی عالم سے بذریعہ یوٹیوب یا ویڈیوز سیکھ لوں تو یہ شرعاً کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  شریعتِ مطہرہ میں کسی  بھی  جان دار  چیز کی تصویر کشی   کرنا ویڈیو وغیرہ بنانااور دیکھنا حرام ہے ، خواہ ڈیجیٹل کیمرے کے ذریعہ سے ہو یا غیر ڈیجیٹل کیمرے سے، بہر صورت ناجائز اور حرام ہے۔

صورتِ مسئولہ میں سائل  کوشش تو یہی کرنی چاہیے کہ قرآن کی تفسیر  آن لائن کلاسزیا یوٹیوب / مختلف ویڈیوز دیکھنے کے بجائےکسی مستند استاذ سے  بالمشافہہ حاصل کی جائے،  اسی طرح  پڑھانے والےکو بھی چاہیے کہ آن لائن پڑھانے کے بجائے آمنے سامنے بیٹھ کر لوگوں کو پڑھائے، اس طریقہ  میں برکت بھی ہے اور یہ تعلیمی افادہ اور استفادہ کے لیے موزوں بھی ہے، تاہم اگر کوئی ضرورت ہو یعنی کسی جگہ صحیح  پڑھانے والا دست یاب نہ ہو یا اور کوئی عذر ہو   اور انٹرنیٹ کے ذریعے کلاسز لی جائیں، یہ جائز ہے ، لیکن  اس کو مندرجہ ذیل طریقہ پر پڑھاجائے:

ویڈیوز وغیرہ سے  تعلیم  محض صوتی یعنی صرف آواز ( آڈیو کال )  کے ذریعہ ہو، ایک  دوسرے کی تصویر  نظر نہ آئے یعنی تعلیم ویڈیو  کیمرے کے ذریعہ  نہ  ہو، اگر دوران تعلیم ویڈیو میں کیمرے کا استعمال ہو تو  کیمرے کا رخ (فوکس) غیرجان دار  چیز (بورڈ، کتاب وغیرہ)   پر ہو، کیمرے کے سامنے  استاذ یا طالبِ علم/ طلبہ کا آنا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ ویڈیو کالنگ وغیرہ شرعاً تصویر کے حکم میں ہے، نیز ویڈیوز میں ناجائز امور پر ( یعنی تصاویر اور نامحرم خواتین پر) مشتمل ایڈز کا آنا نہ ہو۔

یہ بھی ملحوظ رہے کہ محض درسِ تفسیر سننے سے ہی تفسیر نہیں آجاتی، البتہ قرآنِ مجید کے مضامین کا اجمالی و اصولی علم ہوسکتا ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن عبد الله، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إن أشد الناس عذاباً عند الله يوم القيامة المصورون»".

(صحيح البخاري: كتاب اللباس، باب عذاب المصورين، رقم:5950،  ص: 463، ط: دار ابن الجوزي)

فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ".

( كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، 1/647، ط: سعيد)

بدائع الصنائع  فی ترتیب الشرائع میں ہے:

" فأما صورة ما لا حياة له كالشجر ونحو ذلك فلايوجب الكراهة؛ لأن عبدة الصور لايعبدون تمثال ما ليس بذي روح، فلا يحصل التشبه بهم، وكذا النهي إنما جاء عن تصوير ذي الروح لما روي عن علي - رضي الله عنه - أنه قال: من صور تمثال ذي الروح كلف يوم القيامة أن ينفخ فيه الروح، وليس بنافخ الخ".

(كتاب الصلاة، فصل شرائط أركان الصلاة ،ج:1، ص:115، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504100309

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں