بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یوٹیوب کی آمدنی


سوال

کیا کسی عالم یا متقی آدمی کے لیے یوٹیوب کی آمدنی جا ئز ہے؟ اور اگر جائز ہے تو کتنی فیصد صدقہ کرنا ضروری ہے؟

جواب

واضح رہے کہ ذی روح کی تصویر بنانا یا اس کی ویڈیو بنانا شرعا ناجائز اور حرام ہے، ایسے شخص کے لیے شریعت مطہرہ میں بہت ساری وعیدیں آئی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ:"روز قیامت تصویر بنانے والوں کو سخت ترین عذاب دیا جائے گا"، اسی طرح بخاری کی ایک دوسری رویت ہےکہ:" بیشک قیامت کے دن تصویر بنانے والوں کوعذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا، جو تصویر تم نے بنائی ہے انہیں زندہ کرو( اس میں روح پھونکو)"، لہذا ذی روح کی تصویر یا ویڈیو بنانا کسی بھی مقصد کے لیے ہو، شرعا ناجائز اور حرام ہے،اسی طرح چینل سے ملنے والی رقم مندرجہ ذیل  وجوہات کی بناپرشرعا ناجائز اور حرام ہے:

الف)  چینل پر موجود ویڈیوز اگر  جاندار  کی تصاویر   وغیرہ ناجائز امور پر مشتمل ہیں تو یہ  "اجرت علی المعاصی"  ہونے کی وجہ سے حرام ہوگی۔ 

ب)اگر ویڈیو شرعی دائرہ کے مطابق ہو تب بھی اجرت مجہول ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہوگی؛ کیوں کہ چینل کے استعمال کی اجرت وقت کے ساتھ متعین ہونی چاہیے کہ اتنے وقت کی اتنی اجرت ہے یا پھر مکمل مہینہ یا سال کی اتنی اجرت ہے جب کہ مذکورہ صورت میں  اس طرح چینل والے کی اجرت متعین نہیں ہوتی۔

عام طور پر  اگر  چینل بنانے والے کی ویڈیو میں  مذکورہ خرابیاں  نہ بھی ہوں تب بھی یوٹیوب کی  آمدن جائز نہیں ہے، کیوں کہ یوٹیوب  چینل  کی آمدن اس پر چلنے والے اشتہارات کے ذریعے ہوتی ہے، اور  چینل بنانے والا چینل  بناتے وقت یوٹیوب انتظامیہ  کے  ساتھ معاہدے میں اتفاق کرتا ہے کہ  یوٹیوب انتظامیہ اس پر اشتہار چلائے گی، اس کے بعد وہ ملکوں کے حساب سے مختلف ایڈ چلاتے ہیں، مثلاً اگر  پاکستان میں اسی ویڈیو پر وہ کوئی اشتہار چلاتے ہیں، مغربی ممالک میں اس پر وہ کسی اور قسم کا اشتہار چلاتے ہیں، اسی طرح وہ ڈیوائس کی سرچنگ بیس کی بنیاد پر بھی اشتہار دیتے ہیں، جس  میں بسااوقات حرام اور ناجائز چیزوں کی تشہیر بھی کرتے ہیں،لہذا صورتِ مسئولہ میں  ان تمام مفاسد کے پیشِ نظر یوٹیوب پر ویڈیو اپ لوڈ کرکے پیسے کمانے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔

بدائع صنائع میں ہے:

" فأما صورة ما لا حياة له كالشجر ونحو ذلك فلا يوجب الكراهة؛ لأن عبدة الصور لايعبدون تمثال ما ليس بذي روح، فلايحصل التشبه بهم، وكذا النهي إنما جاء عن تصوير ذي الروح لما روي عن علي - رضي الله عنه - أنه قال: من صور تمثال ذي الروح كلف يوم القيامة أن ينفخ فيه الروح، وليس بنافخ فأما لا نهي عن تصوير ما لا روح له لما روي عن ابن عباس - رضي الله عنهما - أنه نهى مصوراً عن التصوير؛ فقال: كيف أصنع وهو كسبي؟ فقال: إن لم يكن بد فعليك بتمثال الأشجار".

(كتاب الصلاة، فصل شرائط أركان الصلاة، ج:1،ص:116،ط: دار الكتب العلمية)

تبیین الحقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (ولا يجوز على الغناء والنوح والملاهي) لأن المعصية لا يتصور استحقاقها بالعقد فلا يجب عليه الأجر من غير أن يستحق هو على الأجير شيئا إذ المبادلة لا تكون إلا باستحقاق كل واحد منهما على الآخر، ولو استحق عليه للمعصية لكان ذلك مضافا إلى الشارع من حيث إنه شرع عقدا موجبا للمعصية تعالى الله عن ذلك علوا كبيرا ولأن الأجير والمستأجر مشتركان في منفعة ذلك في الدنيا فتكون الإجارة واقعة على عمل هو فيه شريك ذكره في النهاية معزيا إلى الذخيرة، وإن أعطاه الأجر وقبضه لا يحل له ويجب عليه رده على صاحبه."

[كتاب الإجارة، ج:5، ص:125، ط: دار الكتاب الإسلامي]

البحرا لرائق میں ہے:

ـ"(قوله هي بيع منفعة معلومة بأجر معلوم) يعني الإجارة شرعا تمليك منفعة بعوض."

[كتاب الإجارة، ج:7، ص:297، ط:دار الكتاب الإسلامي]

فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراماً لا مكروهاً إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره…"

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها،ج:1،ص:647 ،ط: دار الفكربيروت)

 محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

 ” ہم لوگ (مسلمان) اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ جس طرح بھی ممکن ہو لوگوں کو پکا مسلمان بناکر چھوڑیں گے، ہاں! اس بات کے مکلف ضرور ہیں کہ تبلیغِ دین کے لیے جتنے جائز ذرائع اور وسائل ہمارے بس میں ہیں، ان کو اختیار کرکے اپنی پوری کوشش صرف کردیں۔ اسلام نے جہاں ہمیں تبلیغ کا حکم دیا ہے، وہاں تبلیغ کے باوقار طریقے اور آداب بھی بتائے ہیں۔ ہم ان آداب اور طریقوں کے دائرے میں رہ کر تبلیغ کے مکلف ہیں، اگر ان جائز ذرائع اور تبلیغ کے ان آداب کے ساتھ ہم اپنی تبلیغی کوششوں میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ عین مراد ہے، لیکن اگر بالفرض ان جائز ذرائع سے ہمیں مکمل کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ناجائز ذرائع اختیار کرکے لوگوں کو دین کی دعوت دیں اور تبلیغ کے آداب کو پسِ پشت ڈال کر جس جائز وناجائز طریقے سے ممکن ہو، لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کریں۔ اگر جائز وسائل کے ذریعے اور آدابِ تبلیغ کے ساتھ ہم ایک شخص کو دین کا پابند بنادیں گے تو ہماری تبلیغ کامیاب ہے اور اگر ناجائز ذرائع اختیار کرکے ہم سو آدمیوں کو بھی اپنا ہم نوا بنالیں تو اس کامیابی کی اللہ کے یہاں کوئی قیمت نہیں، کیوں کہ دین کے احکام کو پامال کر کے جو تبلیغ کی جائے گی وہ دین کی نہیں کسی اور چیز کی تبلیغ ہوگی“۔

( از محدث العصر  مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ،بحوالہ نقوشِ رفتگاں، ص:۱۰۴،۱۰۵)

   فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100180

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں