میں نے اپنی بیٹی کا نام "یمنی" رکھا ہے۔ آپ کے بتائے ہوئے فتوی نمبر: 144110200029 میں اس کے معنی برکت والی کے ہیں، جب کہ قرآنِ مجید کی سورۂ قیامہ میں آیت نمبر 37 میں لفظِ "یمنی" آیا ہے جس کے معنی ہیں ٹپکی۔ برائے مہربانی دوبارہ سے اسے دیکھ کے بتائیں کہ یہ نام بچی کا رکھا جائے یا نہيں ؟
عربی زبان میں ظاہری طور پر ایک جیسے نظر آنے والے الفاظ کے معنی ایک جیسے ہوں ،یہ ضروری نہیں ہے،بسا اوقات ان کے حروف اصلیہ مختلف ہوتے ہیں اور اس وجہ سے دونوں کے معنی بھی الگ ہوتے ہیں، بسا اوقات ایک فعل (Verb) ہوتا ہے اور ایک اسم (noun) ہوتا ہے، اور کبھی ایک ہی لفظ مختلف معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
سابقہ جواب میں ’’یمنیٰ‘‘ (یُمْنیٰ) کا جو معنی آپ کو بتایا گیا تھا وہ بالکل درست ہے، یہ "یُمْنیٰ" اسم ہے، اور اس کے حروف اصلی "ی، م، ن" ہیں، اس کے مختلف معانی آتے ہیں، برکت والا ہونا، طاقت ، دائیں طرف وغیرہ، اور لڑکیوں کا نام اسی معنی کے اعتبار سے ہے۔
اور جو آپ نے سورۂ قیامہ کی آیت کا ذکر کیا ہے ، وہ آیت یہ ہے"{ أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنٰى} [القيامة:37]" یہاں جو "یمنی" مذکور ہے، یہ اسم نہیں ہے، بلکہ فعل ہے، اور اس کے حروف اصلی بھی الگ ہیں، یہ"م، ن، ی" سے بنا ہے، جس کے معنی پانی کا ٹپکنا، اترنا، منی کا نکلنا، اور قرآن مجید میں اسی کا ذکر ہے۔
لہذا آپ اپنی بیٹی کا نام ’’یمنیٰ‘‘ (یُمْنیٰ) رکھ سکتے ہیں، اس کا معنی "برکت والی" ہے۔
تاج العروس (36 / 302):
"يمن: ( {اليُمْنُ، بالضَّمِّ: البَرَكَةُ) ؛) وَقد تَكَرَّرَ ذِكْرُه فِي الحدِيثِ، وَهُوَ ضِدُّ الشُّؤْمِ؛ (} كالمَيْمَنَةِ) ؛) وَبِه فسِّرَ قَوْلُه تَعَالَى: {أُولَئِكَ أَصْحابُ {المَيْمِنَةِ}، أَي كَانُوا} مَيامِينَ على أَنْفُسِهم غَير مَشَائِيم، وجَمْعُ {المَيْمَنَةِ} مَيَامِنُ، وَقد ( {يَمِنَ) الرَّجُلُ، (كعَلِمَ وعُنِيَ وجَعَلَ وكَرُمَ) ،} يُمْناً، (فَهُوَ {مَيْمونٌ} وأَيْمَنُ {ويامِنٌ} ويمينٌ) . (وَفِي الصِّحاحِ: {يُمِنَ فلانٌ على قوْمِه فَهُوَ} مَيْمونٌ إِذا صارَ مُبارَكاً عَلَيْهِم، ويَمَنَهُم، فَهُوَ {يامِنٌ، مِثْلُ شُئِمَ وشَأَمَ.وَفِي المُحْكَم: يَمَنَه اللَّهُ يُمْناً، فَهُوَ مَيْمُونٌ، واللَّهُ} اليَامِنُ؛ {واليَمِينُ} واليَامِنُ، كالقَدِيرِ والقَادِرِ؛ قالَ:
بَيْتُكَ فِي {اليامِنِ بَيْتُ} الأيْمَنِ (ج {أَيامِنُ) جَمْعُ} أَيْمَن، (و) جَمْعُ {المَيْمونِ (} مَيامِينُ. ( {وتَيَمَّنَ بِهِ) وبرأْيِه (} واسْتَيْمَنَ) :) أَي تَبَرَّكَ بِهِ. (وقَدِمَ على {أَيْمَنِ} اليَمِينِ: أَي {اليُمْنِ)؛) كَمَا فِي الصِّحاحِ.وَفِي المُحْكَم: قَدِمَ على أَيْمَنِ اليُمْنِ: أَي على اليُمْنِ. (} واليَمِينُ: ضِدُّ اليَسارِ، ج {أَيْمُنٌ) بضمِّ الميمِ وفتحِها، (} وأَيْمانٌ {وأَيامِنُ) جَمْعُ أَيْمَنَ، (} وأَيامِينُ) جَمْعُ أَيْمانٍ. (و) {اليَمِينُ: (البَرَكَةُ."
القاموس المحيط (1 / 1336):
"والمَنِيُّ، كَغَنِيٍّ وكإلى، والمَنْيَةُ، كَرَميَةٍ: ماءُ الرَّجلِ والمرأةِ ج: مُنْيٌ، كقُفْلٍ، ومَنَى وأمْنَى ومَنَّى: بمعنًى.واسْتَمْنَى: طَلَبَ خُرُوجَه. ومِنَى، كإلى: ة بمكةَ، وتُصْرَفُ، سُمِّيَتْ لِما يُمْنَى بها من الدِّماءِ. ابنُ عباسٍ: لأنَّ جبريلَ، عليه السلامُ، لَمَّا أرادَ أن يُفارِقَ آدمَ، قال له: تَمَنَّ. قال: أَتَمَنَّى الجَنَّةَ، فَسُمِّيَتْ مِنًى، لأُمْنِيَّةِ آدمَ، وع آخَرُ بنَجْدٍ، وماءٌ قُرْبَ ضَرِيَّةَ. وأمْنَى وامْتَنَى: أتَى مِنَى، أو نَزَلَها."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144207201007
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن