بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

یوٹیوب چینل کے ذریعے کمائی کا حکم


سوال

 میں ایک اسلامک یوٹیوب چینل بنا رہا ہوں جس میں قرآن پاک کا ترجمہ ہوگا اور لیکچر وغیرہ تو کیا اسکی کمائی حلال ہے؟ اگر اس میں ذی روح کی تصویری جھلکیاں ہوں تب کیا حکم ہے؟ اور اگر نہ ہو تو کیا حکم ہے ؟اور اکثر علمائے کرام کے یوٹیوب چینل بنے ہیں جن پر ان کے لیکچر ہوتے ہیں تو کیا اس طرح کے یوٹیوب چینل بنا سکتے ہیں ؟اور اس کے علاوہ کوئی کام  ہنر سکھانے کی ویڈیو بنا کر اسے آگے فروخت کر سکتے ہیں جسے کمپیوٹر کے کورس وغیرہ ہیں ۔

جواب

یوٹیوب پر چینل بناکر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے کی صورت میں اگر اس چینل کے فالوورز زیادہ ہوں تو یوٹیوب،  چینل ہولڈر کی اجازت سے اس میں اپنے مختلف کسٹمر کے اشتہار چلاتا ہے، اور اس کی ایڈورٹائزمنٹ اور مارکیٹنگ کرنے پر ویڈو اَپ لوڈ کرنے والے کو بھی پیسے دیتا ہے۔

اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر چینل پر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے والا:

1۔ جان د ار کی تصویر والی ویڈیو اَپ لوڈ کرے، یا اس ویڈیو میں جان دار کی تصویر ہو، خواہ علماء کے بیانات ہوں۔

2۔ یا اس ویڈیو میں میوزک اور موسیقی ہو۔

3۔  یا اشتہار غیر شرعی ہو ۔

4۔ یا غیر شرعی چیزوں کا اشتہار ہو۔

5۔  یا اس کے لیے کوئی غیر شرعی معاہدہ کرنا پڑتا ہو۔

تو اس کے ذریعے پیسے کمانا جائز نہیں ہے۔

البتہ اگر اس چینل پر قرآن کریم کا ترجمہ اور بیانات وغیرہ اپ لوڈ کرنے میں مذکورہ بالا خرابیاں نہ پائی جائیں تو گنجائش ہے۔

ہماری معلومات کے مطابق یوٹیوب پر ایسا چینل چلانا موجودہ دور میں تقریباً  ناممکن ہے، کیوں کہ اپنی طرف سے  اگر ان شرائط کا لحاظ رکھ بھی لیا جائے تو یوٹیوب انتظامیہ کی طرف سے چینل پر اپنی مرضی سے اشتہارات چلائے جاتے ہیں، جو مختلف ممالک اور علاقوں کے اعتبار سے تبدیل بھی ہوتے ہیں، جن میں بہت سے غیر شرعی امور پر مشتمل اشتہارات ہوتے ہیں، لہٰذا یوٹیوب پر چینل بناکر اس کے ذریعے کمانے سے اجتناب کیا جائے۔

الدر الختار میں ہے:

’’قال ابن مسعود: صوت اللهو و الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: و في البزازيةا: استماع صوت الملاهي كضرب قصب و نحوه حرام؛ لقوله عليه الصلاة و السلام: استماع الملاهي معصية، و الجلوس عليها فسق، و التلذذ بها كفر؛ أي بالنعمة.‘‘

( كتاب الحظر والاباحة، 6/ 348 -349، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ومنها أن يكون مقدور الاستيفاء - حقيقة أو شرعا فلا يجوز استئجار الآبق ولا الاستئجار على المعاصي؛ لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا.... ومنها أن تكون المنفعة مقصودة معتادا استيفاؤها بعقد الإجارة ولا يجري بها التعامل بين الناس فلا يجوز استئجار الأشجار لتجفيف الثياب عليها. .... ومنها أن تكون الأجرة معلومة."

(كتاب الاجارة،الباب الأول في تفسير الاجارة و ركنها و ألفاظها و شرائطها،ج: 4، ص: 411، ط: رشيدية)

أحكام القرآن للجصاص  میں ہے:

"وقوله تعالى: وتعاونوا على البر والتقوى يقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان تعالى لأن البر هو طاعات الله وقوله تعالى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."

(سورة مائدة، ج: 3، ص: 294 ،دار احیاء التراث)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100712

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں