بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یوٹیوبر کو قربانی میں حصہ دار بنانا


سوال

میرا سوال جامعہ کے فتوی کے متعلق ہے۔ میں نے یوٹیوب کی کمائی کے متعلق فتوی دیکھا مجھے یہ سمجھ آئی کہ  یوٹیوب کی کمائی جائز نہیں، مگر کیا یوٹیوب سے کمائی کرنے والے کے ساتھ قربانی کے حصے میں شریک ہو سکتےہیں؟

جواب

واضح رہے کہ  اگر  کسی  فرد کے بارے میں  علم ہو کہ  اس کی کمائی ناجائز ہے یا کمائی کا اکثر حصہ ناجائز اور  حرام ہے تو  اُس کو  قربانی میں شریک کرنا جائز نہیں ہے، اور اگر شرکت کے بعد کسی شریک کے بارے میں علم ہوجائے کہ اس کی کل یا اکثر آمدن ناجائز ہے، تو اسے حصہ داری سے فوراً الگ کرنا ضروری ہے،  ورنہ کسی کی بھی قربانی درست نہیں ہوگی۔ اور   چوں کہ فتوی کی رو سے یوٹیوبر  کی کمائی جائز نہیں ہے،  اس لیے اگر یوٹیوبر کا اس کے علاوہ کوئی اور  ذریعہ آمدن نہ ہو ، یا ہو لیکن کمائی کا زیادہ حصہ یوٹیوب کی کمائی کا ہو تو اُس کو قربانی میں شریک کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر ایسا شخص کسی حلال روز گار سے بھی وابستہ ہو، اور وہ اس بات کی صراحت کے ساتھ قربانی میں حصہ دار بنے کہ وہ حلال آمدن سے ہی شریک ہورہا ہے تو قربانی ادا ہوجائے گی۔

کما فی الفتاوى الهندية:(5 / 304، ط: دار الفکر):

" وإن كان كل واحد منهم صبياً أو كان شريك السبع من يريد اللحم أو كان نصرانياً ونحو ذلك لايجوز للآخرين أيضاً، كذا في السراجية. ولو كان أحد الشركاء ذمياً كتابياً أو غير كتابي وهو يريد اللحم أو يريد القربة في دينه لم يجزئهم عندنا؛ لأن الكافر لايتحقق منه القربة، فكانت نيته ملحقةً بالعدم، فكأنه يريد اللحم، والمسلم لو أراد اللحم لايجوز عندنا".

وفی الشامیة: (5 /99، ط: دار الفکر)

"و الحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201554

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں