بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یوٹیوب پر چینل بنا کر پیسے کمانے کا حکم / کیا قرآن میں جس کو حرام کہا گیا ہے، صرف وہی حرام ہے؟


سوال

1۔  یوٹیوب کے بارے میں میرا سوال ہے  کہ   کیا یوٹیوب کی کمائی اس وجہ سے حرام ہے،  کہ اس پر برہنہ وڈیوز اور نامحرم عورتوں کے ایڈ وغیرہ آتے ہیں؟

2۔ اس طرح  یوٹیوب پر ایک نوجوان مولوی ٹائپ بندہ وہ کہتا  ہے کہ کچھ بھی حرام نہیں،  البتہ جس کا اللہ نے قرآن مجید میں ذکر کیا بس وہ ہی حرام ہے،  باقی کچھ بھی حرام نہیں ہے۔

3۔ اور ادھر میں بھی اپنی طرف سے بات کروں گا کہ ایک بندہ صابن شیمپو بناتا ہے اس پر لڑکی کی تصویر عموماً لگی ہوتی ہے، اب اگلا دکاندار اس سے وہ صابن وغیرہ خریدتا ہے،  کیا اس میں صابن بنانے اور آگے پھر دینے والے دونوں کی کمائی حرام نہیں ہوگی؟ اور جو تاجر حضرات کپڑے کا کام کرتے ہیں ان پر بھی لڑکیاں ہی ہوتی ہیں دکان کے باہر بڑے بڑے پوسٹر لگے ہوتے ہیں، اسی طرح کچھ دکانوں اور بڑے مالوں ، ہوٹلوں، اور ہسپتالوں میں لڑکیاں رکھی ہوتی ہیں، آپ کو پتہ ہوگا وہ لڑکیوں نامحرم لڑکوں سے خوش گپیاں لگاتی ہیں، ننگا سر ہوتا ہے،تو کیا سب  کی کمائی بھی حرام ہوگی ؟ یا مسئلہ یوٹیوب کا ہے؟

اب ایک آدمی اپنی یوٹیوب وڈیوز میں نہ ہی عورت لے کر آتا ہے،  نہ ہی اس میں موسیقی ڈالتا صرف سیدھی سادہ وڈیوز بناتا اس پر ایڈز چلتے ہیں تو کیا  وہ بھی حرام کما رہا ہے؟

جہاں تک بات ہے اسلام کی ہے کہ شریعت میں تصویر کو حرام کہا گیا ہے،  اور جہاں تک وڈیوز کی بات ہے وہ جب ہم موبائل یا ٹی وی آن کرتے ہیں پھر نظر آتی ہے بعد میں موبائل یا ٹی وی بند ہونے کی صورت میں تصویر بھی بند ہوجاتی ہے تو کیا یہ سب بھی حرام ہے؟

جواب

1۔واضح رہے کہ یوٹیوب چینل بنا کر اس پر ویڈیوز اَپ لوڈ کر کے کمائی کی صورتیں مندرجہ ذیل ہوتی ہیں: 

1۔ ایڈورٹائزمنٹ کے ذریعہ کمائی: یوٹیوب پر جب کوئی چینل کھولتا ہے اور اس پر مواد ڈالتا ہے تو چینل کھولنے والا گوگل کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ گوگل مختلف قسم کے ایڈز اس کے چینل پر چلائے، گوگل ان ایڈز سے جو کماتا ہے 45 فیصد خود رکھتا ہے اور 55 فیصد یوٹیوب چینل والے کو دیتا ہے۔گوگل لوگوں سے ہر کلک کے حساب سے رقم وصول کرتا ہے۔

2۔ یوٹیوب کے جو پریمیم کسٹمرز ہیں یوٹیوب ان سے سبسکرپشن فیس لیتا ہے اور جب وہ لوگ کسی چینل کو دیکھتے ہیں تو یوٹیوب اس چینل والے کو اس سبسکرپشن فیس میں سے کچھ دیتا ہے۔

اب ہر ایک کا حکم ترتیب وار ذکر ہے:

1۔ ایڈ کے ذریعہ کمائی کی صورت شرعًا اجارہ کا معاملہ ہے جو گوگل اور یوٹیوب چینل کے مالک کے درمیان ہوتا ہے۔ گوگل چینل کے مالک کو اس کے چینل کے استعمال پر (ایڈ نشر کرنے کی صورت میں) اجرت دیتا ہے۔یہ اجرت مندرجہ ذیل خرابیوں کی وجہ سے حلال نہیں ہے:

الف:  گوگل کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی قسم كا بھی ایڈ چلائے، ان میں اکثر ایڈ جاندار اشیاء کی تصاویر ،پر مبنی ہوتے ہیں، جن میں موسیقی بھی شامل ہوتی ہے،  اور سائل کو انہیں ایڈز کی اجرت ملتی ہے، لہذا یہ اجرت کا معاہدہ تعاون على الاثم ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوگا اور کمائی بھی حلال نہیں ہوگی۔

ب:  اجرت مجہول ہوتی ہے؛ کیوں کہ گوگل ایک متعین اجرت نہیں طے کرتا، بلکہ اپنی کمائی کا 55 فیصد اجرت طے کرتا ہے اور گوگل کی کل اجرت مجہول ہوتی ہے تو اس کا 55فیصد بھی مجہول ہوتا ہے۔ چینل کے استعمال کی اجرت کا تعلق وقت کے ساتھ ہونا چاہیے یعنی جتنی دیر اس پر ایڈ چلے اس حساب سے اجرت ملے؛ لہذا اگر چینل پر چلنے والے ایڈز  سب کے سب شرعی دائرہ کے اندر بھی ہوں تب بھی یہ معاملہ شرعًا اجارہ فاسد ہوگا اور اجرت حلال نہیں ہوگی۔

2۔  یوٹیوب پریمیم میمبر سے بعض سہولیات (جو ویڈیوز دیکھنے اور ڈاونلوڈ کرنے سے متعلق ہوتی ہیں)کے بدلہ سبسکرپشن فیس (اجرت) لیتا ہے اور جب یہ پریمیم میمبر کسی چینل کو دیکھتا ہے تو یوٹیوب اس پر چینل والے کو رقم دیتا ہے۔یہ رقم جو یوٹیوب یوٹیوب چینل والے کو دیتا ہےچینل استعمال کرنے کی اجرت ہے ۔یہ اجرت بھی مندرجہ ذیل وجوہ سے شرعًا جائز نہیں ہے:

الف:  چینل پر موجود ویڈیوز اگر جاندار کی تصاویر پر مشتمل ہیں تو یہ "اجرت علی المعاصی" ہونے کی وجہ سے حرام ہوگی۔ 

ب: اگر ویڈیو شرعی دائرہ کے مطابق ہو تب بھی اجرت مجہول ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہوگی؛ کیوں کہ چینل کے استعمال کی اجرت وقت کے ساتھ متعین ہونی چاہیے کہ اتنے وقت کی اتنی اجرت ہے یا پھر مکمل مہینہ یا سال کی اتنی اجرت ہے،  جب کہ مذکورہ صورت میں  اس طرح چینل والے کی اجرت متعین نہیں ہوتی۔

الفتاوى الهندية میں ہے:

"ومنها أن يكون مقدور الاستيفاء - حقيقة أو شرعا فلا يجوز استئجار الآبق ولا الاستئجار على المعاصي؛ لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا ... ومنها أن تكون المنفعة مقصودة معتادا استيفاؤها بعقد الإجارة ولا يجري بها التعامل بين الناس فلا يجوز استئجار الأشجار لتجفيف الثياب عليها. ... ومنها أن تكون الأجرة معلومة."

(کتاب الاجارۃ، الباب الأول تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها، ٤ / ٤١١، ط: دار الفکر)

أحكام القرآن للجصاص میں ہے:

"وقوله تعالى: وتعاونوا على البر والتقوى يقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان تعالى لأن البر هو طاعات الله وقوله تعالى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."

(سورة المائدة، ٣ / ٢٩٦، ط: دار احیاء التراث)

شرح النووي علی مسلممیں ہے:

قال أصحابنا وغيرهم من العلماء تصوير صورة الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث وسواء صنعه بما يمتهن أو بغيره فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى وسواء ما كان فى ثوب أو بساط أودرهم أو دينار أو فلس أو إناء أو حائط أو غيرها وأما تصوير صورة الشجر ورحال الإبل وغير ذلك مما ليس فيه صورة حيوان فليس بحرام هذا حكم نفس التصوير وأما اتخاذ المصور فيه صورة حيوان فإن كان معلقا على حائط أو ثوبا ملبوسا أو عمامة ونحوذلك مما لايعد ممتهنا فهو حرام وإن كان في بساط يداس ومخدة ووسادة ونحوها مما يمتهن فليس بحرام ولكن هل يمنع دخول ملائكة الرحمة ذلك البيت فيه كلام نذكره قريبا إن شاء الله ولافرق فى هذا كله بين ماله ظل ومالاظل له هذا تلخيص مذهبنا في المسألة وبمعناه قال جماهير العلماء من الصحابة والتابعين ومن بعدهم وهو مذهب الثوري ومالك وأبي حنيفة وغيرهم وقال بعض السلف إنما ينهى عما كان له ظل ولابأس بالصور التي ليس لها ظل وهذا مذهب باطل فإن الستر الذي أنكر النبي صلى الله عليه وسلم الصورة فيه لا يشك أحد أنه مذموم وليس لصورته ظل مع باقي الأحاديث المطلقة في كل صورة وقال الزهري النهي في الصورة على العموم وكذلك استعمال ماهى فيه ودخول البيت الذي هي فيه سواء كانت رقما فى ثوب أو غيررقم وسواء كانت في حائط أو ثوب أو بساط ممتهن أو غير ممتهن عملا بظاهر الأحاديث لاسيما حديث النمرقة الذي ذكره مسلم وهذا مذهب قوى وقال آخرون يجوز منها ما كان رقما في ثوب سواء امتهن أم لا وسواء علق فى حائط أم لاوكرهوا ما كان له ظل أو كان مصورا في الحيطان وشبهها سواء كان رقما أو غيره واحتجوا بقوله في بعض أحاديث الباب إلاما كان رقما في ثوب وهذا مذهب القاسم بن محمد وأجمعوا بقوله في بعض أحاديث الباب إلا ما كان رقما في ثوب وهذا مذهب القاسم بن محمد وأجمعوا على منع ما كان له ظل ووجوب تغييره قال القاضي إلا ماورد في اللعب بالبنات لصغار البنات والرخصة في ذلك لكن كره مالك شراء الرجل ذلك لابنته وادعى بعضهم أن إباحة اللعب لهن بالبنات منسوخ بهذه الأحاديث والله أعلم."

( كتاب اللباس و الزينة، باب تحريم تصوير صورة الحيوان وتحريم اتخاذ ما فيه صورة غير ممتهنةبالفرش ونحوه وأن الملائكة عليهم السلام لايدخلون بيتا فيه صورة أو كلب، ١٤ / ٨١ - ٨٢، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت )

فقه السيرة النبوية مع موجز لتاريخ الخلافة الراشدةمیں ہے:

نص الإمام النووي رحمه الله تعالى في شرحه على صحيح مسلم، قال:

«قال أصحابنا وغيرهم من العلماء: تصوير صورة الحيوان حرام شديد الحرمة، وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث، وسواء صنعه بما يمتهن أو بغيره، فصنعته حرام على كل حال، لأن فيه مضاهاة بخلق الله تعالى، وسواء ما كان في ثوب أو بساط أو درهم أو دينار أو فلس أو إناء أو حائط أو غيرها.

أما تصوير الشجر ورحال الإبل وغير ذلك مما ليس فيه صورة حيوان، فليس بحرام.

هذا حكم نفس التصوير. ... ثم قال رحمه الله تعالى: «وأجمعوا على منع ما كان له ظل، ووجوب تغييره. قال القاضي إلا ما ورد في اللعب بالبنات (اللعب) لصغار البنات، ففي ذلك رخصة».

قلت: ويستشكل الناس حكم الصور الفوتوغرافية اليوم: هل هي في حكم الرسوم والصور التي ترسم وتخطط بمهارة اليد، أم لها حكم آخر.

وقد فهم بعضهم من علة التصوير التي ذكرها النووي فيما نقلناه من كلامه أن التصوير الفوتوغرافي ليس في حكم الرسم باليد، إذ العمل الفوتوغرافي لا يقوم على أي مهارة في الصنعة أو اليد، بحيث تتجلى فيها محاولة المضاهاة بخلق الله تعالى، إذ هو يقوم على تحريك بسيط لناحية معينة في جهاز التصوير، يتسبب عنه انحباس الظل في داخله بواسطة أحماض معينة؛ وهي حركة بسيطة يستطيع أن يقوم بها أي طفل صغير والحق أنه لا ينبغي تكلف أي فرق بين أنواع التصوير المختلفة حيطة في الأمر، ونظرا لإطلاق لفظ الحديث. نقول هذا على سبيل التورع والحيطة، أما الخوض في حقيقة حكمه الشرعي فيحتاج إلى بحث ودراسة مفصلة.

هذا فيما يتعلق بالتصوير. أما الاتخاذ فلا فرق بين الفوتوغرافي وغيره، فيما يبدو. والله أعلم.

ولكن مهما يكن، فإن لنوع الصور أثرا في الحكم على التصوير واتخاذه. فإن كان الشيء المصور من قبيل المحرمات كصور النساء وما شابه ذلك فهو محرم ولا شك، وإن كان مما تدعو المصلحة والحاجة إلى تصويره فربما كانت في ذلك رخصة؛ والله أعلم."

( فتح مكة، العبر والعظات، سادسا- تأملات فيما قام به صلى الله عليه وسلم من أعمال عند الكعبة المشرفة، ص: ٢٨٠ - ٢٨١، ط: دار الفكر - دمشق)

رد المحتار علي الدر المختار میں ہے:

" وفي السراج ودلت المسألة أن الملاهي كلها حرام ويدخل عليهم بلا إذنهم لإنكار المنكر قال ابن مسعود: صوت اللهو والغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات.  قلت: وفي البزازية استماع صوت الملاهي كضرب قصب ونحوه حرام لقوله - عليه الصلاة والسلام - «استماع الملاهي معصية والجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر» أي بالنعمة فصرف الجوارح إلى غير ما خلق لأجله كفر بالنعمة لا شكر فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لا يسمع لما روي «أنه - عليه الصلاة والسلام - أدخل أصبعه في أذنه عند سماعه»

وأشعار العرب لو فيها ذكر الفسق تكره اهـ أو لتغليظ الذنب كما في الاختيار أو للاستحلال كما في النهاية.

(قوله ينبت النفاق) أي العملي (قوله كضرب قصب) الذي رأيته في البزازية قضيب بالضاد المعجمة والمثناة بعدها (قوله فسق) أي خروج عن الطاعة ولا يخفى أن في الجلوس عليها استماعا لها والاستماع معصية فهما معصيتان."

( كتاب الحظر و الاباحة، ٦ / ٣٤٩، ط: دار الفكر)

2۔ مذکورہ صاحب کا  یہ دعوی کہ : "کچھ بھی حرام نہیں. جس کا اللہ نے قرآن مجید میں ذکر کیا بس وہ ہی حرام باقی کچھ بھی حرام نہیں ہے"

از روئے  شرع  غلط ہے،  کیوں کہ   اللہ رب العزت  نے قرآن مجید میں  جن حرام اشیاء  کا تذکرہ فرمایا ہے، وہ سياق و سباق کے اعتبار سے ایک خاص تناظر میں  ہے، جس کا مقصد محرمات  کا حصر نہیں،   ( کہ ان کے علاوہ کوئی چیز حرام  نہ ہو) ،  صحیح و صریح احادیث میں اور بھی حرام چیزوں کا ذکر ملتا ہے، بلکہ ایک روایت میں تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  صراحت  کے ساتھ ایسے شخص کی مذمت فرمائی ہے، جو   کہے کہ: "  کچھ بھی حرام نہیں. جس کا اللہ نے قرآن مجید میں ذکر کیا بس وہ ہی حرام باقی کچھ بھی حرام نہیں ہے"۔

سنن أبي داود میں ہے:

"٤٦٠٤ - حدثنا عبد الوهاب بن نجدة، حدثنا أبو عمرو بن كثير بن دينار، عن حريز بن عثمان، عن عبد الرحمن بن أبي عوف عن المقدام بن معدي كرب، عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: "ألا إني أوتيت الكتاب ومثله معه، ألا يوشك رجل شبعان على أريكته يقول: عليكم بهذا القرآن، فما وجدتم فيه من حلال فأحلوه، وما وجدتم فيه من حرام فحرموه، ألا لا يحل لكم لحم الحمار الأهلي، ولا كل ذي ناب من السبع، ولا لقطة معاهد إلا أن يستغني عنها صاحبها، ومن نزل بقوم، فعليهم أن يقروه، فإن لم يقروه فله أن يعقبهم بمثل قراه."

( كتاب السنة، باب في لزوم السنة، ٧ / ١٣، ط: دار الرسالة العالمية)

ترجمہ: حضرت مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " سنو، مجھے کتاب (قرآن) دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اسی کے مثل ایک اور چیز بھی (یعنی سنت) عطا ہوئی ہے، قریب ہے کہ ایک آسودہ آدمی اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہوئے کہے گا کہ : "اس قرآن کو لازم پکڑو، جو کچھ تم اس میں حلال پاؤ اسی کو حلال سمجھو، اور جو اس میں حرام پاؤ، اسی کو حرام سمجھو"۔

 سنو! تمہارے لیے پالتو گدھے کا گوشت حلال نہیں، اور نہ کسی نوکیلے دانت والے درندے کا، اور نہ تمہارے لیے کسی ذمی کی پڑی ہوئی چیز حلال ہے سوائے اس کے کہ اس کا مالک اس سے دستبردار ہو جائے، اور اگر کوئی کسی قوم میں قیام کرے تو ان پر اس کی ضیافت لازم ہے، اور اگر وہ اس کی ضیافت نہ کریں تو اسے حق ہے کہ وہ ان سے مہمانی کے بقدر لے لے۔

بذل المجهود في حل سنن أبي داود میں ہے:

" (ألا يوشك رجل شبعان) أي ذو المال والرئاسة، جالس (على أريكته) أي سريره، وهذا إشارة إلى تكبره ونخوته (يقول: عليكم بهذا القرآن، فما وجدتم فيه من حلال فأحلوه) أي اعتقدوه حلالا (وما وجدتم فيه من حرام فحرموه)، وأما ما سوى القرآن من الأحاديث فلا تقبل.

(ألا لا يحل لكم الحمار الأهلي، ولا كل ذي ناب من السبع)، وهذه الأشياء ليست في القرآن، وأنا أبين لكم حرمتها فخذوه، كما تأخذون تحليل القرآن وتحريمه."

( كتاب السنة، باب في لزوم السنة، ١٣ / ١٥، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)

معالم السنن للخطابي میں ہے:

" وقوله يوشك شبعان على أريكته يقول عليكم بهذا القرآن فإنه يحذر بذلك مخالفة السنن التي سنها رسول الله صلى الله عليه وسلم مما ليس له في القرآن ذكر على ما ذهبت إليه الخوارج والروافض فإنهم تعلقوا بظاهر القرآن وتركوا السنن التي قد ضمنت بيان الكتاب فتحيروا وضلوا، والأريكة السرير، ويقال أنه لا يسمى أريكة حتى يكون في حجلة وإنما أراد بهذه الصفة أصحاب الترفه والدعة الذين لزموا البيوت ولم يطلبوا العلم ولم يغدوا ولم يروحوا في طلبه في مظانه واقتباسه من أهله."

(كتاب شرح السنة، ومن باب النهي عن الجدال في القرآن، ٤ / ٢٩٨، ط: المطبعة العلمية - حلب)

3۔ ملحوظ رہے کہ کپڑا، صابن،  و دیگر حلال اشیاء  جن کی پیکنگ پر تصاویر  بنی  ہوتی ہیں،  ان کی خرید و فروخت  میں مقصد ان حلال اشیاء  کی خرید و فروخت  ہوتا ہے، نہ کہ پیکنگ پر بنی تصاویر کی خرید و فروخت،  لہذا ان اشیاء کی خرید و فروخت  جائز ہوتی ہے، اور آمدنی بھی حلال ہوتی ہے، البتہ تصاویر  کی اشاعت کا گناہ شائع کرنے والے پر ہوتا ہے، جبکہ یوٹیوب   میں چینل بنانے والے کا ذریعہ آمدن ہی اشتہارات  کا چلنا ہوتا ہے، پس یو ٹیوب  کو دیگر اشیاء پر قیاس کرنا صحیح نہیں، لہذا جواب نمبر ایک میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق یو ٹیوب کی کمائی کا فیصلہ کیا جائے گا۔

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

"(قوله ولبس ثوب فيه تماثيل) عدل عن قول غيره تصاوير لما في المغرب: الصورة عام في ذي الروح وغيره، والتمثال خاص بمثال ذي الروح ويأتي أن غير ذي الروح لا يكره قال القهستاني: وفيه إشعار بأنه لا تكره صورة الرأس، وفيه خلاف كما في اتخاذها كذا في المحيط، قال في البحر: وفي الخلاصة وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لا انتهى، وهذه الكراهة تحريمية. وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصا. وظاهر قوله فينبغي الاعتراض على الخلاصة في تسميته مكروها.

قلت: لكن مراد الخلاصة اللبس المصرح به في المتون، بدليل قوله في الخلاصة بعد ما مر: أما إذا كان في يده وهو يصلي لا يكره وكلام النووي في فعل التصوير، ولا يلزم من حرمته حرمة الصلاة فيه بدليل أن التصوير يحرم؛ ولو كانت الصورة صغيرة كالتي على الدرهم أو كانت في اليد أو مستترة أو مهانة مع أن الصلاة بذلك لا تحرم، بل ولا تكره لأن علة حرمة التصوير المضاهاة لخلق الله تعالى، وهي موجودة في كل ما ذكر. وعلة كراهة الصلاة بها التشبه وهي مفقودة فيما ذكر كما يأتي، فاغتنم هذا التحرير."

( كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة و ما يكره فيها، ١ / ٦٤٧، ط: دار الفكر )

رد المحتار علي الدر المختار میں ہے:

"(و) جاز (بيع عصير) عنب (ممن) يعلم أنه (يتخذه خمرا) لأن المعصية لا تقوم بعينه بل بعد تغيره وقيل يكره لإعانته على المعصية ونقل المصنف عن السراج والمشكلات أن قوله ممن أي من كافر أما بيعه من المسلم فيكره ومثله في الجوهرة والباقاني وغيرهما زاد القهستاني معزيا للخانية أنه يكره بالاتفاق.

(قوله ممن يعلم) فيه إشارة إلى أنه لو لم يعلم لم يكره بلا خلاف قهستاني (قوله لا تقوم بعينه إلخ) يؤخذ منه أن المراد بما لا تقوم المعصية بعينه ما يحدث له بعد البيع وصف آخر يكون فيه قيام المعصية وأن ما تقوم المعصية بعينه ما توجد فيه على وصفه الموجود حالة البيع كالأمرد والسلاح ويأتي تمام الكلام عليه (قوله أما بيعه من المسلم فيكره) لأنه إعانة على المعصية قهستاني عن الجواهر.

أقول: وهو خلاف إطلاق المتون وتعليل الشروح بما مر وقال ط: وفيه أنه لا يظهر إلا على قول من قال إن الكفار غير مخاطبين بفروع الشريعة والأصح خطابهم وعليه فيكون إعانة على المعصية، فلا فرق بين المسلم والكافر في بيع العصير منهما فتدبر اهـ ولا يرد هذا على الإطلاق والتعليل المار."

( كتاب الحظر و الاباحة، فصل في البيع، ٦ / ٣٩١، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100008

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں