بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یوٹیوب چینل کو بیچنے کا حکم


سوال

 یوٹیوب چینل بیچنا کیسا ہے؟میرا یوٹیوب چینل پہلے مونیٹائز تھا اب نہیں ہے، چوں کہ یوٹیوب میں جو کمائی ہوتی ہیں وہ ایڈ سے ہوتی ہےاور یوٹیوب میں جو ایڈ آتے ہیں وہ %99 میوزک اور اور عورتوں کی تصویر ہوتی ہیں، اس طرح یوٹیوب سے پیسے کمانا تو ناجائز ہے۔اب اگر میں اپنا چینل بیچوں  گا تو جس کو بیچوں گا وہ بھی تو اگر پیسہ کمائے گا تو ایسے ہی ایڈ سے پیسے کمائے گا ،اس حالت میں کیا میں اس چینل کو بیچ سکتا ہوں؟ کیا اس کی ناجائز کمائی کی وجہ سے مجھے گناہ ملے گا؟ کیا میرا بیچنا  کسی برے کام کی مدد کرنا ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ  کسی بھی چیز کی خرید و فروخت  کے جائز ہونے کی بنیادی شرطوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ  مبیع (جس  چیز کو بیچا جارہا ہے) اور ثمن( جس کے ذریعے  کسی چیز کو خریدا جارہا ہے)   خارج میں مادی شکل میں  موجود ہویعنی وہ چیز عین ہواور مقدور التسلیم ہو یعنی خریدار کو حوالہ کی جاسکتی ہو،چناں چہ جس چیز کا خارج میں وجود نہ ہو   تو شرعاً ایسی  چیزکی خرید وفروخت جائز نہیں ہے۔

                                                مذکورہ تفصیل کی رو سے صورت مسئولہ میں یوٹیوب چینل شرعا "عین"نہیں ہے ، خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں، مقدور التسلیم بھی نہیں ہے، محض ایک حقِ مجرد ہے ، اس لیے اس میں مبیع بننے کی صلاحیت نہیں  اور ساتھ ساتھ چوں کہ اس کو چلانے اور فروخت کرنے  میں اور بھی بہت سے مفاسد ہیں ، سائل جس کو فروخت کرےگا وہ اس پر پیسے کمانے کی غرض سے ویڈیواپ لوڈ کرے گا اور ویڈیو اپ لوڈ کرنے کا شرعی حکم یہ ہے :

1۔خریدنے والا شخص  جان د ار  کی تصویر والی ویڈیو اپ لوڈ کرے، یا  اس ویڈیو  میں  جان دار کی تصویر ہو۔

2۔ یا اس ویڈیو میں میوزک  اور موسیقی ہو۔

3۔ یا اشتہار  غیر شرعی ہو  ۔

4۔  یا  کسی بھی غیر شرعی شے کا اشتہار ہو۔

5۔ یا اس کے لیے کوئی غیر شرعی معاہدہ کرنا پڑتا ہو۔

عام طور پر اگر ویڈیو میں مذکورہ خرابیاں  نہ بھی ہوں تب بھی یوٹیوب کی طرف سے لگائے جانے والے  اشتہار میں یہ خرابیاں پائی جاتی ہیں، اور ہماری معلومات کے مطابق یوٹیوب  پر کمرشل چینل بناتے وقت ہی معاہدہ کیا جاتاہے کہ یوٹیوب انتظامیہ اپنی صواب دید پر کے مطابق اس پر اشتہار چلائے گی،  اس کے بعد وہ ملکوں کے حساب سے مختلف ایڈ چلاتے ہیں، مثلاً اگر  پاکستان میں اسی ویڈیو پر وہ کوئی اشتہار چلاتے ہیں، مغربی ممالک میں اس پر وہ کسی اور قسم کا اشتہار چلاتے ہیں، اسی طرح ڈیوائس کی سرچنگ بیس کی بنیاد پر بھی اشتہار چلائے جاتے ہیں، جس  میں بسااوقات حرام اور ناجائز چیزوں کی تشہیر بھی کرتے ہیں، ان تمام مفاسد کے پیشِ نظر یوٹیوب چینل کو  خود چلانا بھی درست نہیں ہے اور کسی دوسرے کے فروخت کرنا گناہ کے کام میں مدد کرنا ہے اس بنا  پر درست نہیں ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"إذ من شرط المعقود عليه: أن يكون موجوداً مالاً متقوماً مملوكاً في نفسه، وأن يكون ملك  البائع فيما ببيعه لنفسه، وأن يكون مقدور التسليم، منح".

(كتاب البيوع، مطلب فى بيع المغيب فى الأرض، 5/ 59، ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے :

"وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فأنواع (منها) : أن يكون موجودا فلاينعقد بيع المعدوم ... (ومنها) أن يكون مالاً لأن البيع مبادلة المال بالمال".

(كتاب البيوع، فصل في شرط الذى يرجع إلي المعقود عليه، 5/ 138 ، ط: رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے :

"وفي الأشباه: لايجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة، وعلى هذا لايجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف.

مطلب: لايجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة (قوله: لايجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لاتحتمل التمليك و لايجوز الصلح عنها."

 (کتاب البیوع، 4/ 518، ط: سعید)

أحكام القرآن للجصاص  میں ہے:

"وقوله تعالى: وتعاونوا على البر والتقوى يقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان تعالى لأن البر هو طاعات الله وقوله تعالى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."

(سورہ مائدہ ج :3،ص :296،ط:دار احیاء التراث)

رد المحتار  میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم : الإجماع علٰی تحریم تصویر الحیوان، وقال: وسواء لما یمتهن أو لغیره فصنعه حرام لکل حال، لأن فیه مضاهاة لخلق اللّٰہ".

( رد المحتار علی الدر المختار، فرع لا بأس بتكليم المصلي وإجابته برأسه، 674/1، ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"قال ابن مسعود: صوت اللهو و الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: و في البزازية: إستماع صوت الملاهي كضرب قصب و نحوه حرام ؛لقوله عليه الصلاة و السلام:  استماع الملاهي معصية، و الجلوس عليها فسق، و التلذذ بها كفر؛ أي بالنعمة".

(كتاب الحظر والإباحة، 349،348/6، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144407100844

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں