بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

یوٹیوب کی آمدنی کا حکم


سوال

میں ریاضی کا استاذ ہوں ،  اسکول وغیرہ میں نویں دسویں جماعت والوں کو  ریاضی پڑھاتا ہوں، اگر میں کیمرہ آن کر کے موبائل سامنے رکھوں، کسی موضوع پر کوئی لیکچر دوں پھر ویڈیو  کی شکل میں   یوٹیوپ پر اپلوڈ کردوں، یوٹیوپ والے(واچ ٹائم اور سبسکرائبرز پورے ہونے پر ) اس ویڈیو پر  ویوز کے حساب سے مجھے پیسے دیتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ پیسےمیرے لیے   جائز ہیں یا نہیں؟

اگر ایسے کرنا جاندار کی تصویر کی وجہ سے  میرے لئے جائز نہیں ہو  تو  دوسرا طریقہ  ویڈیو بنانے کا یہ ہے کہ   کاپی  کے  اوپر   قلم  سے سوال لکھ کر  اس کو حل کر کے ساتھ ساتھ سمجھاتا رہوں ،(میری تصویر وغیرہ نہ ہو ، صرف ہاتھ نظر آئیں)   اس طریقے سے یوٹیوب سے ملنے والی آمدنی کا کیا حکم ہے؟

جواب

1:یوٹیوب پر چینل بناکر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے کی صورت میں  یوٹیوب کے قوانین کے مطابق (واچ ٹائم اور فالورز مکمل ہونے کے بعد  )یوٹیوب چینل ہولڈر کی اجازت سے اس میں اپنے مختلف کسٹمر کے اشتہار چلاتا ہے، اور اس کی ایڈو ٹائزمنٹ اور مارکیٹنگ کرنے پر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے والے کو  پیسے دیتا ہے،اس صورت میں اگر مندرجہ ذیل شرعی خامیاں پائی جائیں مثلاً:

1۔  جان د ار  کی تصویر والی ویڈیو اپ لوڈ کرے، یا  اس ویڈیو  میں  جان دار کی تصویر ہو۔

2۔ یا اس ویڈیو میں میوزک  اور موسیقی ہو۔

3۔ یا اشتہار  غیر شرعی ہو ۔

4۔  یا  کسی بھی غیر شرعی شے کا اشتہار ہو۔

5۔ یا اس کے لیے کوئی غیر شرعی معاہدہ کرنا پڑتا ہو۔

تو اس  صورت میں یوٹیوب کے  ذریعے پیسے کمانا جائز نہیں ہے۔

لہذا آپ کے سوال میں مذکورہ بالا شرائط میں ویڈیو میں  جاندار کی تصویر ہے،اور  اجاندار  کی تصویر پرمشتمل اشتہارات    کی خرابیاں پائی جاتی ہیں اس لئے ایسی  کمائی شرعاً جائز نہیں ۔

2: تاہم    اگر چینل بنانے والے کی طرف سے   ویڈیو میں  مذکورہ خرابیاں   نہ بھی ہوں، تب بھی یوٹیوب کی طرف سے لگائے جانے والے اشتہارات  میں یہ خرابیاں پائی جاتی ہیں، اور اسی طرح یوٹیوب پر چینل بناتے وقت ہی معاہدہ کیا جاتا ہے کہ مخصوص مدت میں چینل کے سبسکرائبرز اور ویورز مخصوص تعداد تک پہنچیں گے تو یوٹیوب انتظامیہ اس چینل پر مختلف لوگوں کے اشتہارات چلانے کی مجاز ہوگی، اور چینل بنانے والا اس معاہدے کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوتا ہے، علاوہ ازیں یوٹیوب چینل کے ذریعے اگر آمدن مقصود ہو تو اس سلسلے میں انتظامیہ سے اجارے کا جو معاہدہ کیا جاتا ہے وہ بھی شرعی تقاضے پورے نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہوتا، اس لیے اس  صورت میں بھی یوٹیوب سےحاصل ہونے والی کمائی جائز نہیں ہوگی ۔ حاصل یہ ہے کہ یوٹیوب کے ذریعے کمانے کی صورتوں سے اجتناب کیا جائے۔

مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: أشد الناس عذاباً يوم القيامة الذين يضاهون بخلق الله."

( کتاب اللباس، باب التصایر، ج، 2، ص: 1274، رقم الحدیث: 4495، ط: المكتب الإسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قال ابن مسعود: صوت اللهو و الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: و في البزازية: إستماع صوت الملاهي كضرب قصب و نحوه حرام ؛لقوله عليه الصلاة و السلام: استماع الملاهي معصية، و الجلوس عليها فسق، و التلذذ بها كفر؛ أي بالنعمة."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة،  ج: 6، ص: 348 ط دار الفکر)

و فیه أیضاً:

وظاهر كلام النووي في شرح مسلم ‌الإجماع ‌على ‌تحريم ‌تصوير ‌الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصا."

( كتاب الصلاة، ج: 1، ص: 647، ط: دار الفکر)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ومنها أن يكون مقدور الاستيفاء - حقيقة أو شرعا فلا يجوز استئجار الآبق ولا الاستئجار على المعاصي؛ لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا. ومنها أن لا يكون العمل المستأجر له فرضا ولا واجبا على الأجير قبل الإجارة فإن كان فرضا أو واجبا قبلها لم يصح. ومنها أن تكون المنفعة مقصودة معتادا استيفاؤها بعقد الإجارة ولا يجري بها التعامل بين الناس فلا يجوز استئجار الأشجار لتجفيف الثياب عليها.......... ومنها أن تكون الأجرة معلومة."

(كتاب الإجارة، الباب الأول، ج: 4، ص:  411، ط: دار الفکر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144607101667

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں