بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

یوٹیوب پر پیسے کمانے کا حکم


سوال

کیا یوٹیوب پر پیسے کمانا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ یوٹیوب پر چینل بناکر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے کی صورت میں اگر اس چینل کے فالوورز  زیادہ ہوں تو یوٹیوب چینل ہولڈر کی اجازت سے اس میں اپنے مختلف کسٹمر کے اشتہار چلاتا ہے، اور اس کی ایڈورٹائزمنٹ اور مارکیٹنگ کرنے پر ویڈیو اپ لوڈ کرنے والے کو بھی پیسے دیتا ہے،  اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر چینل پر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے والا:

1-جان دار کی تصویر والی ویڈیو اپ لوڈ  نہیں کرتا، اور نہ اس  ویڈیو میں جاندار کی تصویر ہو۔

2- نہ اس میں میوزک اور موسیقی ہو۔

3- اور نہ  اشتہار غیر شرعی ہو، اور نہ  کسی غیر شرعی چیز کا اشتہار ہو۔

4-  اس کے لیے کوئی غیر شرعی معاہدہ  بھی نہیں کرنا پڑتا ہو۔

تو اس کے ذریعے پیسے کمانا جائز  ہوگا، اور اگر مذکورہ خرابیاں موجود ہو تو جائز نہیں ہوگا ۔

اور ہماری معلومات کے مطابق عام طور پر اگر  چینل بنانے والے کی اپ لوڈ کردہ ویڈیو میں مذکورہ خرابیاں  نہ بھی ہوں تب بھی یوٹیوب کی طرف سے لگائے جانے والے  اشتہار میں یہ خرابیاں پائی جاتی ہیں، اور اسی طرح  یوٹیوب  پر چینل بناتے وقت ہی معاہدہ کیا جاتاہے کہ  مخصوص مدت میں چینل کے سبسکرائبرز اور  ویورز مخصوص تعداد تک پہنچیں گے تو یوٹیوب انتظامیہ اس چینل پر مختلف لوگوں کے اشتہارات چلانے کی مجاز ہوگی، اور چینل بنانے والا اس معاہدے کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوتاہے، علاوہ ازیں یوٹیوب چینل کے ذریعے اگر آمدن مقصود ہو تو اس سلسلے میں انتظامیہ سے اجارے کا جو معاہدہ کیا جاتاہے  وہ بھی شرعی تقاضے پورے نہ ہونے  کی وجہ سے جائز نہیں ہوتا، اس لیے اس  کی کمائی بھی  درست نہیں ہے۔

لہذا  خلاصہ یہ ہے کہ صورتِ مسئولہ میں  یوٹیوب پر پیسے کمانانا جائز ہے اس  سے اجتناب کریں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"لا يستحق ‌الربح إلا بإحدى ثلاث: بمال، أو عمل، أو تقبل..قوله: أو تقبل) عبارة الدرر أو ضمان."

(کتاب الشركة، مطلب شركة الوجوه، ج:4 ص:324، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال ابن مسعود صوت اللهو والغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: وفي البزازية استماع صوت الملاهي كضرب قصب ونحوه حرام لقوله - عليه الصلاة والسلام - استماع الملاهي معصية والجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر،  أي بالنعمة فصرف الجوارح إلى غير ما خلق لأجله كفر بالنعمة لا شكر فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لا يسمع لما روي أنه - عليه الصلاة والسلام - أدخل أصبعه في أذنه عند سماعه."

(كتاب الحظر والإباحة، ج: 6، ص: 348، ط: سعيد)

فیہ ایضاً:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ."

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة و مايكره فيها، ج: 1، ص: 647، ط: سعيد)

تفسیر مظہری میں ہے:

"ولا تعاونوا ‌على ‌الإثم ‌والعدوان يعنى لا تعاونوا على ارتكاب المنهيات ولا على الظلم لتشفى صدوركم بالانتقام عن النواس بن سمعان الأنصاري قال سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن البر والإثم قال البر حسن الخلق والإثم ما حاك فى نفسك وكرهت ان يطلع عليه الناس رواه مسلم فى صحيحه والبخاري فى الأدب والترمذي."

(سورة المائدة، آية: 3، ج: 3، ص: 19، ط: مكتبة الرشيدية)

فتاویٰ ہندیہ  میں ہے:

"و منها أن يكون مقدور الاستيفاء - حقيقة أو شرعا فلا يجوز استئجار الآبق ولا الاستئجار على المعاصي؛ لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا.... ومنها أن تكون المنفعة مقصودة معتادا استيفاؤها بعقد الإجارة ولا يجري بها التعامل بين الناس فلا يجوز استئجار الأشجار لتجفيف الثياب عليها. .... ومنها أن تكون الأجرة معلومةً."

(كتاب الإجارة، الباب الأول تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها،  ج:4، ص:411، ط:دار الفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(لا تصح الإجارة ...لأجل المعاصي مثل الغناء والنوح والملاهي)...(قوله والملاهي) كالمزامير والطبل...وفي المنتقى: امرأة نائحة أو صاحبة طبل أو زمر اكتسبت مالا ردته على أربابه إن علموا وإلا تتصدق به، وإن من غير شرط فهو لها: قال الإمام الأستاذ لا يطيب، والمعروف كالمشروط اهـ. قلت: وهذا مما يتعين الأخذ به في زماننا لعلمهم أنهم لا يذهبون إلا بأجر ألبتة ط."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، مطلب في الاستئجار على المعاصي، ج: 6، ص: 55، ط: سعيد)

فقہ البیوع علی المذھب الاربعہ میں ہے:

"ولكن معظم استعمال التلفزيون في عصرنا في برامج لاتخلو من محظور شرعي، وعامة المشترين يشترونه لهذه الأغراض المحظورة من مشاهدة الأفلام والبرامج الممنوعة، إن كان هناك من لا يقصد به ذلك. فبما أن غالب استعماله في مباح ممكن فلا نحكم بالكراهة التحريمنية في بيعه مطلقا، إلا إذا تمحض لمحظور، ولكن نظرا إلى أن معظم استعماله لا يخلو من كراهة تنزيهية . وعلى هذا فينبغي أن يتحوط المسلم في اتخاذ تجارته مهنة له في الحالة الراهنة إلا إذا هيأ الله تعالی جوا يتمحض أو يكثر فيه استعماله المباح."

 (الباب الثالث في احكام المبيع و الثمن..ج:1، ص:314، ط:مكتبة معارف القرآن)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101854

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں