بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

یوٹیوب کی کمائی سے حج کرنے کا حکم


سوال

ایک شخص یوٹیوب سے پیسے کماتا ہے اور پھر  ان پیسوں سے حج کے لئے جاتا ہے ،اب سوال یہ ہے کہ یوٹیوب کے پیسوں پر حج کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  یوٹیوب  پر چینل بناکر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے کی صورت میں اگر اس چینل کے فالوورز  زیادہ ہوں تو یوٹیوب چینل ہولڈر کی اجازت سے اس میں اپنے مختلف کسٹمر کے اشتہار چلاتا ہے، اور اس کی ایڈورٹائزمنٹ اور مارکیٹنگ کرنے پر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے والے کو بھی پیسے دیتا ہے۔ اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر چینل پر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے والا:

  1. جان د ار  کی تصویر والی ویڈیو اَپ لوڈ کرے، یا  اس ویڈیو  میں  جان دار کی تصویر ہو۔
  2. یا اس ویڈیو میں میوزک  اور موسیقی ہو۔
  3. یا اشتہار  غیر شرعی ہو۔
  4. یا  کسی بھی غیر شرعی شے کا اشتہار ہو۔
  5. یا اس کے لیے کوئی غیر شرعی معاہدہ کرنا پڑتا ہو۔

تو اس کے ذریعے پیسے کمانا جائز نہیں ہے۔

نیز  ہماری معلومات کے مطابق  اکثر طور پر یوٹیوب کی طرف سے لگائے جانے والے  اشتہارات میں مذکورہ بالا خرابیاں پائی جاتی ہیں ،جس کی تفصیل یہ ہےکہ  یوٹیوب انتظامیہ کی جانب سے یوٹیوب چینل بنانے والے کو فیس کی ادائیگی کے بعد اشتہارات بندکرنے  کا تو اختیار دیا جاتا ہے، لیکن اشتہارات بند کروانے کی صورت میں کمائی نہیں ہوسکتی ،اگر یوٹیوب کے ذریعے آمدن  مقصود ہو تو اس پر  لازماًاشتہارات کھلوانے پڑتے ہیں، اور  اشتہارات چلانے کے بعدان میں دکھائے جانے والے مناظر اور ان مناظرکے ذریعہ کی جانے والی کسی بھی قسم کی تشہیر میں یوٹیوب انتظامیہ کی جانب سے چینل والے کو یہ اختیار ہرگز حاصل نہیں ہوتا کہ وہ ان کی جانچ پڑتال کرکے انہیں شرعی دائرہ کار میں لاسکیں؛کیوں کہ  یوٹیوب  پر چینل بناتے وقت ہی  یہ معاہدہ کیا جاتاہے کہ جب مخصوص مدت میں چینل کے سبسکرائبرز اور  ویورز مخصوص تعداد تک پہنچیں گےتو یوٹیوب انتظامیہ اس چینل پر مختلف لوگوں کے اشتہارات چلانے کی مجاز ہوگی، اور چینل بنانے والا  چینل بناتے وقت اس معاہدے کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوتاہےالّا یہ کہ اشتہارات بند کرنے کے لیے وہ باقاعدہ فیس ادا کرے اور چینل کو کمرشل بنیاد پر استعمال نہ کرے،لہذا چینل بناتے وقت یوٹیوب انتظامیہ کو جب اشتہارات چلانے کی اجازت دی جائے، تو اس کے بعد وہ  لوکیشن یا ملکوں کے حساب سے مختلف اشتہارات  چلاتے ہیں، مثلاً اگر  پاکستان میں اسی ویڈیو پر وہ کوئی اشتہار چلاتے ہیں،تو مغربی ممالک میں اس پر وہ کسی اور قسم کا اشتہار چلاتے ہیں،  اور پاکستان میں ہی اگر ایک شخص کی ڈیوائس پر ایک اشتہار چلتاہے ،تو دوسرے شخص کی ڈیوائس پر دوسری نوعیت کا اشتہار چل سکتاہے، ان اشتہارات میں اکثر وبیشتر جان دار کی تصویر،موسیقی، اسی طرح حرام اور  ناجائز چیزوں کی تشہیر کی جاتی ہے،علاوہ ازیں یوٹیوب چینل کے ذریعے اگر آمدن مقصود ہو تو اس سلسلے میں انتظامیہ سے اجارے کا جو معاہدہ کیا جاتاہے  وہ بھی شرعی تقاضے پورے نہ ہونے   کی وجہ سے جائز نہیں ہوتا؛لہذاان تمام مفاسد کے پیشِ نظریوٹیوب  سے ہونے والی کمائی معاصی اور گناہ کے کاموں میں معاونت کی اجرت ہونے کی وجہ سےناجائز اور حرام ہے۔اور ناجائز  کمائی سے اگر کوئی شخص حج کرتا ہے تو اس کا فریضہ تو ادا ہوجاۓ گا لیکن اس کا حج مقبول نہیں ہوگا ، نہ ہی اسے کامل حج کاثواب ملے گا۔

قرآن مجید میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

"وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى ‌وَلا ‌تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقابِ(المائدة:2)"

ترجمہ:"اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو اور گناہ و زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو ،بلاشبہ اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے."(بیان القرآن )

سنن ترمذی میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا أيها الناس، إن الله طيب ولا يقبل إلا طيبا وإن الله أمر المؤمنين بما أمر به المرسلين»، فقال: {يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحا إني بما تعملون عليم} [المؤمنون: 51]، وقال: {يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم} [البقرة: 172] قال: «وذكر الرجل يطيل السفر أشعث أغبر يمد يده إلى السماء يا رب، يا رب ‌ومطعمه ‌حرام، ومشربه حرام، وملبسه حرام، وغذي بالحرام، فأنى يستجاب لذلك»."

(أبواب تفسیر القرآن، ومن سورۃ البقرۃ، 128/2، ط:قديمي)

المعجم الاوسط للطبراني ميں ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا خرج الرجل حاجا ‌بنفقة طيبة، ووضع رجله في الغرز، فنادى: لبيك اللهم لبيك، ناداه مناد من السماء: لبيك وسعديك، زادك حلال، وراحلتك حلال، وحجك مبرور غير مأزور، وإذا خرج بالنفقة الخبيثة، فوضع رجله في الغرز، فنادى: لبيك، ناداه مناد من السماء: لا لبيك ولا سعديك، زادك حرام ونفقتك حرام، وحجك غير مبرور»."

(باب الميم، من إسمه محمد، 251/5، ط:دار الحرمین)

ہدایہ میں ہے:

"قال: "ولا يجوز الاستئجار على الغناء والنوح، وكذا سائر الملاهي"؛ لأنه استئجار على ‌المعصية والمعصية لا تستحق بالعقد."

(كتاب الإجارات،‌‌ باب الإجارة الفاسدة، 238/3، ط: دار إحياء التراث العربي)

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن الفرض لا يمكن اتصافه بالحرمة، وهنا كذلك ‌فإن ‌الحج ‌في ‌نفسه مأمور به، وإنما يحرم من حيث الإنفاق، وكأنه أطلق عليه الحرمة لأن للمال دخلا فيه، فإن الحج عبادة مركبة من عمل البدن والمال كما قدمناه، ولذا قال في البحر ويجتهد في تحصيل نفقة حلال، فإنه لا يقبل بالنفقة الحرام كما ورد في الحديث، مع أنه يسقط الفرض عنه معها ولا تنافي بين سقوطه، وعدم قبوله فلا يثاب لعدم القبول، ولا يعاقب عقاب تارك الحج."

(کتاب الحج، مطلب فيمن حج بمال حرام، 456/2، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"قال ابن مسعود: صوت اللهو و الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: و في البزازية: إستماع صوت الملاهي كضرب قصب و نحوه حرام ؛لقوله عليه الصلاة و السلام: استماع الملاهي معصية، و الجلوس عليها فسق، و التلذذ بها كفر؛ أي بالنعمة لا شكر فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لا يسمع."

(كتاب الحظر والإباحة، 348،49/6، ط:سعید)

غنیۃ الناسک میں  ہے:

"ولا بمال حرام  ولو حج به سقط عنه الفرض لكنه لا تقبل حجته كما ورد في الحديث، ولا تنافي بين سقوطه، وعدم قبوله فلا يثاب لعدم القبول، ولا يعاقب عقاب تارك الحج."

(شرائط الحج، أداء الحج بمال حرام أو مشتبه، ص:41، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية)

مجمع الانہر میں ہے:

"لا يجب بالمال الحرام لكن لو حج به جاز؛ ‌لأن ‌المعاصي لا تمنع الطاعات."

(كتاب الحج، شروط الحج، 261/1، ط: دار إحیاء التراث العربي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409100232

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں