بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یو ٹیوب چینل یا بلاگ کے ذریعہ پیسے کمانے کا حکم


سوال

 یوٹیوب چینل سے یا بلاگ سے گوگل ایڈسینس کے ذریعے پیسے کمانا حلال ہے یا نہیں؟

جواب

یو ٹیوب چینل یا بلاگ وغیرہ کے ذریعہ جو پیسہ کمایا جاتا ہے اس میں درحقیقت صارف اپنا مواد  ویڈیو  کی شکل میں بنا کر یوٹیوب چینل یا بلاگ کو دیتا ہے،اگر اس چینل کے فالوورز زیادہ ہوں تو یوٹیوب چینل ہولڈر کی اجازت سے اس میں اپنے مختلف کسٹمر کے اشتہار چلاتا ہے، اور اس کی ایڈورٹائزمنٹ اور مارکیٹنگ کرنے پر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے والے کو بھی پیسے دیتا ہے۔اس ادائیگی کے لیے وہ گوگل ایڈ سینس کا اکاؤنٹ استعمال کرتا ہے۔لہذا اپنی ویڈیوز کے ذریعے پیسے کمانے کے لیے ان شرائط کا لحاظ ضروری ہے:

1-ویڈیوز میں کسی جان دار کی  تصویر نہ ہو۔

2-ویڈیو میں کسی غیر شرعی اور ناجائز امر کی ترویج نہ   کی گئی ہو۔

3- ویڈیو میں موسیقی نہ ہو۔

4- پیسوں کی وصولی یا ادائیگی  کرنے  میں کوئی سودی معاملہ  یا فاسد عقد نہ کرنا پڑتا ہو۔

5-  جان دار کی تصاویر والے یا کسی طور پر بھی غیر شرعی اشتہارات اس چینل پر نہ چلتے ہوں۔

اگر ان شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی فوت ہوجائے تو اس کے ذریعہ پیسے کمانا جائز نہیں ہوگا۔

عام طور پر اگر  چینل بنانے والے کی اَپ لوڈ کردہ ویڈیو میں مذکورہ  خرابیاں  نہ بھی ہوں تب بھی یوٹیوب کی طرف سے لگائے جانے والے  اشتہار میں یہ خرابیاں پائی جاتی ہیں، اور ہماری معلومات کے مطابق  یوٹیوب  پر چینل بناتے وقت ہی معاہدہ کیا جاتاہے کہ  مخصوص مدت میں چینل کے سبسکرائبرز اور  ویورز مخصوص تعداد تک پہنچیں گے تو یوٹیوب انتظامیہ اس چینل پر مختلف لوگوں کے اشتہارات چلانے کی مجاز ہوگی، اور چینل بنانے والا اس معاہدے کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوتاہے، الا یہ کہ اشتہارات بند کرنے کے لیے وہ باقاعدہ فیس ادا کرے اور چینل کو کمرشل بنیاد پر استعمال نہ کرے، اور ان اشتہارات کا انتخاب کسی بھی یوزر کی سرچنگ بیس یا لوکیشن یا مختلف لوگوں کے اعتبار سے مختلف ہوسکتاہے، لہٰذا چینل  بناتے وقت چوں کہ اس معاہدے پر رضامندی پائی جاتی ہے، اس لیے یوٹیوب پر چینل بنانا ہی درست نہیں ہے، اور چینل بناتے وقت یوٹیوب انتظامیہ کو جب ایڈ چلانے کی اجازت دی جائے تو اس کے بعد وہ  مختلف ڈیوائسز کی سرچنگ بیس یا لوکیشن یا ملکوں کے حساب سے مختلف ایڈ چلاتے ہیں، مثلاً اگر  پاکستان میں اسی ویڈیو پر وہ کوئی اشتہار چلاتے ہیں، مغربی ممالک میں اس پر وہ کسی اور قسم کا اشتہار چلاتے ہیں،  اور پاکستان میں ہی ایک شخص کی ڈیوائس پر الگ اشتہار چلتاہے تو دوسرے شخص کی ڈیوائس پر دوسری نوعیت کا اشتہار چل سکتاہے، جس  میں بسااوقات حرام اور  ناجائز چیزوں کی تشہیر بھی کرتے ہیں، ان تمام مفاسد کے پیشِ نظر یوٹیوب پر ویڈیو اپ لوڈ کرکے پیسے کمانے کی شرعًا اجازت نہیں ہے۔

علاوہ ازیں یوٹیوب چینل کے ذریعے اگر آمدن مقصود ہو تو اس سلسلے میں انتظامیہ سے اجارے کا جو معاہدہ کیا جاتاہے  وہ بھی شرعی تقاضے پورے نہ ہونے  (مثلًا: اجرت کی جہالت) کی وجہ سے جائز نہیں ہوتا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع علي تحريم تصوير الحيوان؛ و قال: وسواء لما يمتهن أو لغيره فصنعه حرام لكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله".

(١/ ٦٤٧، ط: سعيد)

فقہ السیرہ میں ہے:

"و الحق أنه لاينبغي تكلف أي فرق بين أنواع التصوير المختلفة ... نظراً لإطلاق الحديث." (٤/ ٩٧)

الفتاوى الهندية (5/ 349):

"وفي المنتقى: إبراهيم عن محمد - رحمه الله تعالى - في امرأة نائحة أو صاحب طبل أو مزمار اكتسب مالاً، قال: إن كان على شرط رده على أصحابه إن عرفهم، يريد بقوله: "على شرط" إن شرطوا لها في أوله مالاً بإزاء النياحة أو بإزاء الغناء، وهذا؛ لأنه إذا كان الأخذ على الشرط كان المال بمقابلة المعصية، فكان الأخذ معصيةً، والسبيل في المعاصي ردها، وذلك هاهنا برد المأخوذ إن تمكن من رده بأن عرف صاحبه، وبالتصدق به إن لم يعرفه؛ ليصل إليه نفع ماله إن كان لايصل إليه عين ماله، أما إذا لم يكن الأخذ على شرط لم يكن الأخذ معصيةً، والدفع حصل من المالك برضاه فيكون له ويكون حلالاً له."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209202247

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں