بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

یوم آزادی کے موقع پر باجے بجانا اور اس کی خرید و فروخت کرنا


سوال

14 اگست کے موقع پر آج کل بچے اور نوجوان باجا بجاتے ہیں، تو پوچھنا یہ ہے کہ اس کا ستعمال شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ نیز اس کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ   مسلمانوں کو   انگریز کی براہ راست   ظالمانہ حکومت اور تسلط سے نجات ملنا اور  اسلامی شریعت کے اجراء و نفاذ کے لیے پاک سرزمین کا حاصل ہوجانا واقعی نعمت ہے، اور  اللہ تعالیٰ کی نعمت اور عنایتوں پر خوشی و مسرت محسوس کرنا  اور اس کا اظہار کرنا شرعا  نہ صرف جائز ہے  بلکہ مسنون بھی ہے، لیکن  اس  خوشی کا اظہار کا طریقہ   شریعت کے مطابق اور عاجزی اور بندگی کے اظہار کی صورت ہی میں ہونا ضروری ہے؛  جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتحِ مکہ کے موقع پر انتہائی تواضع اختیار فرماکر اُمت کی تربیت فرمائی، اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز فاتحانہ نہیں بلکہ عابدانہ و عاجزانہ تھا، اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے تواضع، عاجزی، حلم، رواداری، کشادہ دلی، امن و مواخات اور مواسات کی عملی  مثال بن کر ،   امت کے لیے خوشی وآزادی  کے اظہار کا طریقہ واضح فرمادیا۔ اگر   مذکورہ احکام و آداب سے صرف نظر کرتے ہوئے محض روایتی رسم کے طور پر قومی دن منایا جائے اور اس میں دیگر غیر اسلامی اقوام کی طرح  گانے، باجے، آتش بازی،  چراغاں ، رقص و سرود کی محفلیں  اور مختلف شکلوں میں اموال و املاک ضائع کرنے یا دیگر لہو ولعب کا ارتکاب کیا جائے تو یہ شرعاً ناجائز بھی ہے اورعملی و فکری طور پر  نعمت   کی ناقدری اور ناشکری بھی  ہے۔

آزادی کی نعمت کی خوشی کے اظہار کے  لیے  باجے بجانے میں درج ذیل خرابیاں ہیں:

1:   یہ نعمت پر خوشی کا اظہار کا مسلمانوں کا طریقہ نہیں ہے، بلکہ غیر اقوام کا طریقہ ہے۔ 

2: ایک حدیث مبارک میں ہے ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”دو آوازیں دنیا اور آخرت میں ملعون ہیں : (1) نعمت کے حصول کے وقت  باجے (وغیرہ موسیقی کے آلات) کی آواز ۔ (2)  مصیبت کے وقت    آہ وبکا  کے ساتھ رونے کی آواز.“

لہذا  آزادی کی نعمت کی خوشی کے موقع پر ان باجوں کی آوازیں  حدیث مبارکہ کی رو سے ملعون ترین آواز ہیں۔

3:  باجا، یہ آلاتِ موسیقی میں سے ہے،  اس کا استعمال عام حالت میں بھی منع ہے۔

4: یہ عمل محض لہو ولعب میں داخل ہے، اور مسلمانوں کو لہو ولعب اور فضول کاموں سے بچنے کا حکم ہے۔

5: یہ اسلامی احکامات کی پامالی کرکے عملاً نعمت کی ناشکری، اور اکابرین امت  کی محنت اور شہداء کے خون کی ناقدری ہے۔

6: اس کے شور وشرابہ سے کئی لوگوں بالخصوص مریض، سوئے ہوئے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے، اور مسلمان کو تکلیف پہنچانا ناجائز اور حرام ہے۔

لہذا  یوم ِ آزادی کے موقع پر اس طرح کے باجےفروخت کرنے اور  استعمال کرنے سے مکمل اجتناب کرنا ضروری ہے، اور اس کی آمدنی بھی حلال نہیں ہوگی۔

مسند البزار  ميں هے:

"حدثنا شبيب بن بشر البجلي، قال: سمعت أنس بن مالك يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: صوتان ملعونان في الدنيا والآخرة: مزمار عند نعمة ورنة عند مصيبة."

(14/ 62، في مسند أبي حمزة أنس بن مالك، مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة)

 روح المعانی میں ہے:

"ولهو الحديث على ما روي عن الحسن كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها." 

(تفسیر آلوسی (11 / 66) سورۃ لقمان، ط: دار الکتب العلمیة)

         تکملۃ فتح الملہم میں ہے:

’’فالضابط في هذا... أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام اور مكروه تحريماً،... وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي  عنه من الكتاب أو السنة... كان حراماً أو مكروهاً تحريماً،... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله  وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً، والثاني ماليس كذالك  فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح." 

(تکملہ فتح المہم، قبیل کتاب الرؤیا، (4/435) ط:  دارالعلوم کراچی)

عمدة القاری میں ہے:

"قوله" مزمارة الشيطان " بكسر الميم يعني الغناء أو الدف وهمزة الاستفهام قبلها مقدرة وهي مشتقة من الزمير وهو الصوت الذي له صفير وسميت به الآلة المعروفة التي يرمز بها وإضافتها إلى الشيطان من جهة أنها تلهي وتشغل القلب عن الذكر وفي رواية حماد بن سلمة عند أحمد " فقال يا عباد الله المزمور عند رسول الله - صلى الله عليه وسلم  - " قال القرطبي " المزمور " الصوت وضبطه عياض بضم الميم وحكى فتحها وقال ابن سيده يقال زمر يزمر زميرا وزمرانا غنى في القصب وامرأة زامرة ولا يقال رجل زامر إنما هو زمار وقد حكى بعضهم رجل زامر وفي الجامع في الحديث " نهى عن كسب الزمارة " يريد الفاجرة وفي الصحاح ولا يقال للمرأة زمارة وفي كتاب ابن التين الزمر الصوت الحسن ويطلق على الغناء أيضا وجمع المزمار مزامير."

 (6 / 269، باب الحراب والدرق يوم العيد، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401100985

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں