بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

یومِ آزادی کے موقع پر مسجد پر پرچم لگانے کا حکم


سوال

یوم آزادی کے موقع  پرمسجد پر جھنڈا لگانا کیسا ہے ؟کچھ لوگ کہتے ہیں کہ لگا سکتے ہیں ،کیوں کہ اصل چیزوں میں حلت ہے، تو بعض لوگ کہتے ہیں نہیں لگا سکتے،  کیوں کہ مسجد آسمان تک مسجد ہی ہے اور مسجد میں اس طرح کے سیاسی کام نہیں ہونے چاہیے اور دوسری بات یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد پر جھنڈا نہیں لگایا تھا ،بلکہ دوسرے جگہ لگایا تھا، اس جگہ اب مسجد الرایہ ہے، آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب

مسجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر اور نماز ودیگر عبادات کو بجالایا جاتا ہے، چوں کہ یومِ آزادی منانا  اپنی آزادی کی خوشی منانے کا ایک قومی دن ہے، لہذا مذکورہ موقع پر مسجد میں جھنڈے لگانے سے اجتناب کرنا چاہیے، نیز فتح مکہ کے موقع پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے زبیربن عوام رضی اللہ عنہ نے مقامِ حجون میں جھنڈا گاڑا تھا، جو فتح کی مناسبت سے بطورِ شعار میدان جنگ میں گاڑاجاتاہے، اس وقت وہاں کوئی مسجد تعمیر نہیں تھی، البتہ بعد میں مسجد تعمیر ہوئی جس کو مسجد الرایۃ (جھنڈے والی مسجد) کہا جاتا ہے۔

الجامع لاحکام القرآن (تفسير القرطبي ) میں ہے:

"وأن المساجد لله فلا تدعوا مع الله أحدا (18)

 قوله تعالى: (وأن المساجد لله) أن بالفتح، قيل: هو مردود إلى قوله تعالى: قل أوحي إلي أي قل أوحي إلي أن المساجد لله. وقال الخليل: أي ولأن المساجد لله. والمراد البيوت التي تبنيها أهل الملل للعبادة. وقال سعيد بن جبير: قالت الجن كيف لنا أن نأتي المساجد ونشهد معك الصلاة ونحن ناءون عنك؟ فنزلت: وأن المساجد لله أي بنيت لذكر الله وطاعته".

(سورۃ الجن، رقم الآیۃ:18، ج:9، ص:20، ط:دارالفکر)

فتح الباری لابن حجر میں ہے:

عن نافع بن جبير، قال: سمعت العباس يقول للزبير رضي الله عنهما: «ها هنا أمرك النبي صلى الله عليه وسلم أن تركز الراية»

  والراية يتولاها صاحب الحرب".

(کتاب الجہاد، ج:6، ص:126، ط:دارالکتب العلمیۃ)

إنسان العيون في سيرة الأمين المأمون(السيرة الحلبية  ) میں ہے:

"أنه صلى الله عليه وسلم أعطى الزبير رضي الله تعالى عنه راية، وأمره أن يغرزها بالحجون، لا يبرح حتى يأتيه في ذلك المحل وفي ذلك المحل بني مسجد يقال له مسجد الراية".

(باب ذکر مغازیه، فتح مكة شرفها الله تعالی، ج:3، ص:120، ط:دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100415

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں