بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یتیم خانہ سے بچی کو گود لینا


سوال

میری شادی کو  6 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور میری اولاد نہیں ہے، میں اپنا علاج ڈاکٹری اور حکیمی دونوں طرح کروا چکا ہوں، اب میں یتیم خانے سے ایک بچی لینا چاہتا ہوں، میں آپ سے اس بچی کےحوالے سے وراثت کےمسائل اور اگر وہ بچی لینے کے بعد ہماری اپنی اولاد ہوجاتی ہے تو ہماری اپنی اولاد اور اس بچی کا آپس میں تعلق محرم والا ہو گا یا نامحرم والا؟  اور اس حوالے سے دیگر مسائل کے بارے میں بھی رہنمائی فرمائیں۔ برائے مہربانی اس سوال کا جواب قرآن وحدیث سے مع حوالہ عنایت فرمائیں!

جواب

شریعتِ مطہرہ میں لے پالک اور منہ بولے بیٹے کی حقیقی اولاد  کی طرح حیثیت نہیں ہے،  اور کسی کو منہ بولا بیٹا بنانے سے وہ حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا اور نہ ہی اس پر حقیقی اولاد والے احکام جاری ہوتے ہیں،  البتہ گود میں لینے والے کو  بچے کی  پرورش، تعلیم وتربیت  اور اسے ادب واخلاق سکھانے کا ثواب ملتا ہے،  جاہلیت کے زمانہ  میں یہ دستور تھا کہ لوگ منہ بولی اولاد کو حقیقی اولاد کا درجہ دیتے تھے، لیکن اسلام نے اس تصور ورواج کو ختم کرکے یہ اعلان کردیا کہ منہ بولی اولاد حقیقی اولاد نہیں ہوسکتی۔ اور لے پالک کو  ان کے اصل والد کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے۔  جب رسولﷺ نے زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا ”متبنیٰ“ (منہ بولا بیٹا)   بنایا اور لوگ ان کو ”زید بن محمد“ پکارنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں:

{وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا اٰبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا }   [الأحزاب: 4، 5]

ترجمہ: اور تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (سچ مچ کا) بیٹا نہیں بنادیا یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے ، تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا، لیکن ہاں دل سے ارادہ کر کے کرو (تو اس پر مؤاخذہ ہوگا)، اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ (از بیان القرآن)

اس آیت کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کرام حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے والد کی طرف منسوب کرکے ”زید بن حارثہ“  کے نام سے پکارنے لگے، لہذا اس سے معلوم ہوا کہ  کسی  بچے کو گود لینے سے وہ حقیقی بیٹایا بیٹی نہیں بنتے، نہ ہی ان پر حقیقی بچوں والے احکامات جاری ہوتے ہیں، البتہ   اگر کوئی شخص کسی  بچے کو  لے کر اس  غرض سے اپنے پاس رکھے کہ میں اس کی تربیت  وپرورش کروں گا، اور اسے بیٹے کی طرح رکھوں گا، اوراس کے اخراجات ومصارف  اٹھاؤں گا، اور اس کے حقیقی والد سے اس کی نسبت منقطع نہ کرے   تو یہ جائز ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ:

۱۔ سائل اگر یتیم خانہ سے کوئی بچی لیتا ہے تو یہ بچی اپنے حقیقی والد کی تو  وارث بنے گی، لیکن جس شخص نے اس کو گود لیا ہے اس کے ترکہ میں اس کا اولاد ہونے کی حیثیت سے حق وحصہ نہیں ہوگا، ہاں اپنی زندگی میں بطورِ گفٹ اسے کوئی چیز  دی جاسکتی ہے اور اسی طرح  (اگر وہ بچی شرعی وارث نہ بن رہی ہو تو)  اس کے حق میں ایک تہائی ترکہ تک کی وصیت کی جاسکتی ہے۔

۲۔ اگر سائل شخص نے یتیم خانہ سے بچی لی تو یہ بچی اس کے لیے غیر محرم ہوگی، صرف گود لینے سے یہ محرم نہیں بن جائے گی، بلکہ بالغ ہونے کے بعد اس شخص سے بھی شرعی پردہ کرے گی اور اسی طرح  بچی کو گود لینے کے بعد اگر اس شخص کے اپنے بچے  ہوتے ہیں تو ان کے لیے بھی یہ لڑکی ٖغیر محرم ہوگی، ان سے بھی پردہ لازم ہوگا، البتہ اگر  سائل کی بھابھی یا بہن اس بچی کو مدت رضاعت (ڈھائی سال) میں دودھ پلا لے تو  سائل اس بچی کا چچا یا ماموں بن جائے گا اور یہ اس کا محرم ہوگا اور اگر  سائل کی بیوی نے اس بچی کو مدت رضاعت میں دودھ پلایا تو یہ بچی ان کی اولاد کے لیے بھی محرم (رضاعی بہن) بن جائے گی۔

باقی منہ بولی بیٹی چوں کہ حقیقی بیٹی نہیں ہوتی؛ اس لیے اس کو  اس کے حقیقی والد کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے، اس کی ولدیت میں گود لینے والے کا نام درج کرانا حرام اور ناجائز ہے، ہاں گود لینے والا شخص بطورِ سرپرست اس بچی کو اپنا نام دے سکتا ہے۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

﴿ اُدْعُوهُمْ لِاٰبَآئِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ ۚ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوْا اٰبَآءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا﴾ (الأحزاب: ٥)

ریاض الصالحین میں ہے:

"367 - باب تحريم انتساب الإِنسان إِلَى غير أَبيه وَتَولِّيه إِلَى غير مَواليه 1/1802-عَنْ سَعْدِ بن أَبي وقَّاصٍ أنَّ النبيَّ ﷺ قالَ: مَن ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ أنَّهُ غَيْرُ أبِيهِ فَالجَنَّةُ عَلَيهِ حَرامٌ. متفقٌ عليهِ".

ترجمہ: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : جس شخص نے اپنے والد کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو جانتے ہوئے اپنا والد قرار دیا تو اس پر جنت حرام ہے۔

"2/1803- وعن أبي هُريْرَة عَن النَّبيِّ ﷺ قَالَ: لاَ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ أبيهِ فَهُوَ كُفْرٌ. متفقٌ عليه".

ترجمہ: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اپنے والد سے بے رغبتی و اعراض مت کرو ؛ اس لیے کہ جو شخص اپنے والد سے اعراض (اپنے آپ کو کسی اور کی طرف منسوب) کرے گا تو یہ کفر ہے۔

"3/1804- وَعَنْ يزيدَ شريكِ بن طارقٍ قالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا عَلى المِنْبَرِ يَخْطُبُ، فَسَمِعْتهُ يَقُولُ: ... وَمَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أبيهِ، أَوْ انتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَاليهِ، فَعلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّه وَالملائِكَةِ وَالنَّاسِ أجْمَعِينَ، لا يقْبَلُ اللَّه مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامةِ صَرْفًا وَلا عَدْلًا. متفقٌ عليه".

حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں : جو شخص اپنے والد کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا والد قرار دے گا یا غیر کی طرف منسوب کرے گا تو اس پر اللہ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو، روز قیامت اللہ اس کی مالی عبادات قبول نہیں کرے گا۔

"4/1805- وَعَنْ أَبي ذَرٍّ أنَّهُ سَمِعَ رسولَ اللَّه ﷺ يَقُولُ: لَيْسَ منْ رَجُلٍ ادَّعَى لِغَيْر أبيهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إلاَّ كَفَرَ، وَمَنِ ادَّعَى مَا لَيْسَ لهُ، فَلَيْسَ مِنَّا، وَليَتَبوَّأُ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّار، وَمَنْ دَعَا رَجُلًا بِالْكُفْرِ، أوْ قالَ: عدُوَّ اللَّه، وَلَيْسَ كَذلكَ إلاَّ حَارَ عَلَيْهِ متفقٌ عليهِ. وَهَذَا لفْظُ روايةِ مُسْلِمِ".

ترجمہ: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : جانتے ہوئے کسی اور کے بارے میں والد ہونے کا دعوی کسی نے کیا تو اس نے کفر کیا ۔۔۔الحدیث۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200057

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں