بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چچا کے لیے حفاظت کی خاطر یتامیٰ کی زمین بیچنے کا حکم


سوال

میں بر طانیہ میں مقیم ہوں ،پاکستان میں حویلیاں میں میرا ایک پلاٹ ہے،یہ پلاٹ تقریباً ایک سال پہلے خریداتھا،اس پلاٹ کےسا تھ آگے سڑک سے نزدیک پا نچ مرلہ کا ایک پلاٹ ہے،جو دو نابالغ یتیم بچو ں اوران کی والدہ کی ملکیت ہے،بچوں کی عمریں تقریباًِ پانچ سال یا اس سے لگ بھگ ہیں ،یہ پلاٹ ان بچوں کے مرحوم والد نے چند سال پہلے خریدا تھا،مرحوم کے سگے بھائی نے اپنے مرحوم بھائی کی بیوہ سےنکاح کیا،یہی شخص ان بچوں کا کفیل اور ولی ہے ،جوکہ رشتے میں ان بچوں کا سگا چچا اور سوتیلا والد ہے،بچوں کے دادا کا بھی انتقال ہو چکا ہے ،یہ جگہ ضلع ایبٹ آبادمیں حویلیاں میں’’ جوڑے میرا‘‘ کے مقام پر شاہراہ ریشم کےکنارے واقع ہے،جب کہ بچوں کی رہائش ایبٹ آباد شہرمیں ’’منڈیاں‘‘ کے مقام پر ہے،جوکہ اس پلاٹ سےتقریباً پندرہ کلومیٹر دور ہے،بچوں کا ولی اس جگہ کو فروخت کرکے بچوں کی رہائش سے نزدیک انہی بچوں کے نام پر نئی جگہ خریدنا چاہتا ہے،اس مقصد کے لیے اس نے عدالت سے گارڈین سرٹیفکیٹ بھی حاصل کر لیا ہے،جس میں وہ عدالت کی طرف سے پابند ہے کہ وہ پلاٹ کی فروخت سے حاصل ہونی والی رقم سے بچوں کےلیے نئی جگہ خریدے یا بچوں کے نام پر یہ رقم مختص کرے،مجھے اس عدالتی حکم کے بارے میں زیادہ تفصیل معلوم نہیں ہے،بچوں کے ولی کے نزدیک ا س پلاٹ کو فروخت کرنے کی سب سے بڑی وجہ اس جگہ کا بچوں کی اصل رہائش سے دور ہونا ہے،جس کی وجہ سے زمین کی دیکھ بھال میں مشکل ہو تی ہے،بچوں کا ولی بادی النظر میں بچوں کے ساتھ مخلص نظر آتا ہے،ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا سارا خرچ یہ شخص برداشت کرتا ہے،بقول اس شخص کے اس نے ایک نیا مکان خریدا ہے جس میں اپنے سگے بچوں کے ساتھ اپنے ان سوتیلے بچوں کوبھی حصہ دار بنا ئے گا،بظاہر پلاٹ کی اس جگہ سے فروخت کے عمل میں بچوں کا فائدہ نظر آ رہا ہے،لیکن تمام باتوں اور حقائق کا مکمل علم صرف اللہ کے پاس ہے، بچوں کے ولی کے ہمارے ساتھ اچھے تعلقات ہیں،وہ اس جگہ کو ہم پر فروخت کرنا چاہتا ہے،یہ پلاٹ یتیم بچوں کی ملکیت ہونے کی وجہ سے میں بہت تذبذب کا شکار ہوں کہ کہیں بچوں کی حق تلفی نہ ہوجائے یا مستقبل میں ان کانقصان نہ ہو جائے،یتیم کے مال کو نقصان پہنچانے کے بارے میں وعیدیں بہت سخت ہیں،میرے ان خدشات کے پیش نظر وہ شخص مندرجہ ذیل باتوں پر حلفاً اور قانوناً معاہدہ کرنے کو تیار ہے:

1:مذکورہ بالا پلاٹ کی فروخت کے بعد بچوں کے لیے ان کی رہائش سے نزدیک جگہ خریدنے کا سارا عمل ہماری نگرانی میں ہو گا۔

2:بچوں کے لیے نئی زمین خریدنے کے عمل میں پیسوں کی ادائیگی ہم کریں گے؛ تاکہ بچوں کی حق تلفی کا خطرہ نہ رہے۔

3: نئی زمین کی کم از کم مالیت موجودہ زمین کے برابر یا اس سےزیادہ ہو۔

4:وعدہ خلافی کی صورت میں وہ ہمارے پیسے واپس کرے گا اور ہم بچوں کا پلاٹ اس کو واپس کریں گے۔

اب سوال یہ ہے کہ:۔۔۔

1:ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا میرے لیے اس پلاٹ کو خریدنا شرعی طور پر جائزہے ؟

 2:کیا شرعی طور پر یتیم نابالغ بچوں کا ولی ان بچوں کی زمین ایک جگہ سے فروخت کرکےاسی مالیت یا اس سے زیادہ کی زمین انہی بچوں کے نام پر کہیں اور خرید سکتا ہے؟ بشرطیکہ اس میں بظاہر ان بچوں کا فائدہ نظر آ رہا ہو؟

جواب

واضح رہے کہ نابالغ بچوں کے مال میں تصرف کاحق صرف بچے کے اس کے ولی کو حاصل ہے،ا ور اصطلاحِ شریعت میں ’’ولی‘‘ یتیم کی کفالت کرنے والے ہر شخص کو نہیں کہاجاتا،بلکہ ولی سے مرادچند لوگ ہیں،جن میں سب سے پہلے نمبر پر بچے کا باپ،پھر وہ شخص جس کو یتیم کاباپ اپنی زندگی میں وصی( یعنی اپنے ترکہ اور بچوں کی دیکھ بھال کا مختار)بناکر جائے،پھر بچے کادادا،پھر اس کابنایاہوا وصی اور پھر حاکمِ وقت اور اس کے وصی کا درجہ ہے۔

بچے کے مال کو کاروبار میں لگانا،یااس کے مال کی خریدوفروخت کاحق صرف اور صرف انہی اولیاء کوحاصل ہےجو اوپر ذکر کیے گئے ہیں،نابالغ،یتیم کے بھائی،چچا وغیرہ کو(جب کہ وہ وصی نہ ہوں) اس کااختیار حاصل نہیں ہے،تاہم نابالغوں کی ضروریات مثلاً لباس،کھانے،پینے یا دیگر ان ضروریات کےلیے جن کی عدمِ دستیابی سے بچوں کو ضرر ہو ٗان کی منقولی چیزوں کوفروخت کرکے اس کی آمدنی انہی پر خرچ کرنے کا اختیارچچاوغیرہ کو بھی حاصل ہے،بشر ط یہ کہ وہ یتیم ان کی پرورش میں ہوں۔

صورتِ مسئولہ میں اگر نابالغ یتیموں کا مذکورہ چچا ان کا وصی ہے،تو اس پلاٹ کی دیکھ بھال اور اس کی حفاظت کی خاطر اس کو فروخت کرکے اس کےپیسوں سے انہی یتیموں کےلیے زمین خریدناجائز ہے،اور اگر بچوں کے باپ نے تو ان کو وصی نہیں بنایا لیکن انہوں نے واقعۃًحکومتِ وقت کو ساری صورتِ حال اور تفصیل بتاکران سےگارڈین سرٹیفکیٹ حاصل کرلیا ہے،تب بھی اس زمین کو بیچ کر اس کے بدلے دوسری زمین یتیموں کے نام پر خریدناجائز ہے،اور اگر ان دوصورتوں میں سے کوئی صورت بھی موجود نہیں ہےتوتیسری صورت میں نہ ہی چچا کا وہ زمین بیچناجائز ہےاور نہ ہی معلوم ہوتے ہوئے سائل کےلیے اس زمین کو خریدناجائز ہے۔

حاشية ابن عابدين  میں ہے:

"وفي الزيلعي والقهستاني الأصح لا لأنه نادر، وجاز بيعه عقار صغير من أجنبي لا من نفسه بضعف قيمته، أو لنفقة الصغير أو دين الميت، أو وصية مرسلة لا نفاذ لها إلا منه، أو لكون غلاته لا تزيد على مؤنته، أو خوف خرابه أو نقصانه، أو كونه في يد متغلب درر وأشباه ملخصا قلت: وهذا لو البائع وصيا لا من قبل أم أو أخ فإنهما لا يملكان بيع العقار مطلقا ولا شراء غير طعام وكسوة، ولو البائع أبا فإن محمودا عند الناس أو مستور الحال يجوز.

(قوله أو خوف خرابه) تقدم في عقار الكبير الغائب أن الأصح أنه لا يبيعه لذلك، والظاهر أنه لا يجري التصحيح هنا لأن المنظور إليه هذا منفعة الصغير ولذا جاز هنا في بعض هذه الصور ما لا يجوز في عقار الكبير تأمل (قوله أو كونه في يد متغلب) كأن استرده منه الوصي ولا بينة له وخاف أن يأخذه المتغلب منه بعد ذلك تمسكا بما كان له من اليد فللوصي بيعه وإن لم يكن لليتيم حاجة إلى ثمنه ... (قوله مطلقا) أي ولو في هذه المستثنيات، وإذا احتاج الحال إلى بيعه يرفع الأمر إلى القاضي."

(ص:٧١١،ج:٦،کتاب الوصایا،باب الوصی،ط:ایج ایم سعید)

وفيه أيضاً:

"(ووصي أبي الطفل أحق بماله من جده وإن لم يكن وصيه فالجد) كما تقرر في الحجر في المنية ليس للجد بيع العقار والعروض لقضاء الدين وتنفيذ الوصايا بخلاف الوصي فإن له ذلك انتهى.

(قوله ووصي أبي الطفل أحق إلخ) الولاية في مال الصغير للأب ثم وصيه ثم وصي وصيه ولو بعد، فلو مات الأب ولم يوص فالولاية لأبي الأب ثم وصيه ثم وصي وصيه فإن لم يكن فللقاضي ومنصوبه ... وأما وصي الأخ والأم والعم وسائر ذوي الأرحام ففي شرح الإسبيجابي أن لهم بيع تركة الميت لدينه أو وصيته إن لم يكن أحد ممن تقدم لا بيع عقار الصغار إذ ليس لهم إلا حفظ المال ولا الشراء للتجارة ولا التصرف فيما يملكه الصغير، من جهة موصيهم مطلقا لأنهم بالنظر إليه أجانب، نعم لهم شراء ما لا بد منه من الطعام والكسوة وبيع منقول ورثة اليتيم من جهة الموصي لكونه من الحفظ لأن حفظ الثمن أيسر من حفظ العين."

(ص:٧١٤،ج:٦،کتاب الوصایا،باب الوصی،ط:ایج ایم سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"وليس لمن سوى هؤلاء من الأم والأخ والعم وغيرهم ولاية التصرف على الصغير في ماله؛ لأن الأخ والعم قاصرا الشفقة وفي التصرفات تجري جنايات لا يهتم لها إلا ذو الشفقة الوافرة، والأم وإن كانت لها وفور الشفقة لكن ليس لها كمال الرأي لقصور عقل النساء عادة فلا تثبت لهن ولاية التصرف في المال ولا لوصيهن؛ لأن الوصي خلف الموصي قائم مقامه فلا يثبت له إلا قدر ما كان للموصي وهو قضاء الدين والحفظ لكن عند عدم هؤلاء.

ولوصي الأم والأخ أن يبيع المنقول والعقار لقضاء دين الميت، والباقي ميراث للصغير ثم ينظر إن كان واحد ممن ذكرنا حيا حاضرا فليس له ولاية التصرف أصلا في ميراث الصغير؛ لأن الموصي لو كان حيا لا يملكه في حال حياته فكذا الوصي، وإن لم يكن فله ولاية الحفظ لا غير إلا أنه يبيع المنقول لما أن بيع المنقول من باب الحفظ؛ لأن حفظ الثمن أيسر وليس له أن ‌يبيع ‌العقار لاستغنائه عن الحفظ لكونه محفوظا بنفسه وكذا لا يبيع الدراهم والدنانير؛ لأنها محفوظة وليس له أن يشتري شيئا على سبيل التجارة وله أن يشتري ما لا بد منه للصغير من طعامه وكسوته وما استفاد الصغير من المال من جهة أخرى سوى الإرث بأن وهب له شيء أو أوصي له به فليس له ولاية التصرف فيه أصلا عقارا كان أو منقولا؛ لأنه لم يكن للموصى عليه ولاية فكذا الوصي."

(ص:١٥٥،ج:٥،کتاب البیوع،فصل فی ترتیب الولایة،ط:دار الكتب العلمية)

الفتاوي الهندية  میں ہے:

"وصي القاضي بمنزلة وصي الأب إلا في خصلة وهي أن القاضي إذا جعل أحدا وصيا في نوع كان وصيا في ذلك النوع خاصة والأب إذا جعل أحدا وصيا في نوع كان وصيا في الأنواع كلها، كذا في فتاوى قاضي خان."

(ص:١٧٧،ج:٣،کتاب البیوع،الباب السابع عشر،ط:دار الفکر،بیروت)

درر الحکام شرح مجلة الأحكام  میں ہے:

"التصرف على الصغار ثلاثة أنواع:النوع الأول: التصرف الذي من باب الولاية، ولا يملك هذا غير الولي كالإنكاح، والشراء وبيع مال قنية وما ماثل ذلك من التصرفات التي لا يقدر عليها غير أولياء الصغير ... النوع الثاني: التصرف الذي من ضرورة حال الصغار كاشتراء المأكولات والملبوسات والمشروبات للصغير وبيع ما يكون بيعه ضروريا للصغير وما أشبه ذلك وهذا النوع من التصرفات كما يقدر عليه الأولياء المذكورون في هذه المادة يقدر عليه أيضا من تربى الصغير في حجرهم كالأخ والعم والأم والملتقط فهؤلاء يقدرون على هذه التصرفات بشرط أن يكون الصغير في عيالهم أو في حجرهم وتربيتهم."

(ص:٦٩٦،ج:٢،الکتاب التاسع،الباب الأول،المادۃ:٩٧٤،ط:دار الجیل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506100682

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں