بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

یتیم کا ہدیہ قبول کرنے کا حکم


سوال

یتیم اگر ہدیہ دے،  تو کیا  ہم لے سکتے ہیں یا انکار کردیں؟

جواب

شریعت کی اصطلاح میں یتیم اس نابالغ بچے کو کہا جاتا ہے، جس کا والد   وفات پاچکا  ہو، یہ بچہ بالغ ہونے تک یتیم کہلاتا ہے، اس کے بعد یتیم نہیں کہلاتا۔

سائل کی مراد "یتیم" سے اگر یہی یتیم ہے، تو  یتیم بچہ چوں کہ نابالغ ہوتا ہے اور نابالغ کو  اپنے مال میں سے کسی کو ہدیہ کرنے کا اختیار نہیں ہے اور نہ ہی اس کے ولی کو اختیار ہے، لہٰذا کسی بھی یتیم بچے سے ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں ہے۔

اور اگر یتیم سے سائل کی مراد وہ شخص ہے، جس کے والد فوت ہوچکے ہوں، چاہے وہ بالغ ہو یا نابالغ ہو، تو ایسا شخص اگر عاقل بالغ ہو، تو اس کا ہدیہ قبول کرنا جائز ہے، بصورتِ دیگر جائز نہیں ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وحقيقة اسم اليتيمة للصغيرة لغة قال النبي: - صلى الله عليه وسلم - «‌لا ‌يتم ‌بعد ‌الحلم» نهى - صلى الله عليه وسلم - عن إنكاح اليتيمة، ومده إلى غاية الاستئمار ولا تصير أهلا للاستئمار إلا بعد البلوغ."

(كتاب النكاح، ج:2، ص:238، ط:دار الكتب العلمية)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(وتصرف الصبي والمعتوه) الذي يعقل البيع والشراء (إن كان نافعا) محضا (كالإسلام والاتهاب صح بلا إذن وإن ضارا كالطلاق والعتاق) والصدقة والقرض (لا وإن أذن به وليهما وما تردد) من العقود (بين نفع وضرر كالبيع والشراء توقف على الإذن) حتى لو بلغ فأجازه نفذ."

(كتاب المأذون، ج:6، ص:173، ط:سعيد)

مبسوط سرخسی میں  ہے:

"وذكر الطحاوي - رحمه الله تعالى - أن ذلك الغلام الذي قتله عالم موسى كان بالغا فقد كان عاقلا مميزا والبلوغ في ذلك الوقت كان بالعقل ثم ذكر في الحديث وكتبت تسألني عن اليتيم متى يخرج من اليتم؟ فإذا احتلم يخرج من اليتم ويضرب له بسهم وهذا لقول النبي - صلى الله عليه وسلم - «‌لا ‌يتم ‌بعد ‌الحلم» والذي روي أن الكفار كانوا يسمون رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يتيم أبي طالب بعد المبعث قد كانوا يقصدون الاستخفاف به لا أنه في الحال يتيم."

(كتاب السير، ج:10، ص:30، ط:دار المعرفة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144402101445

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں