بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

یتیم بچوں کی سرپرستی کس کا حق ہے؟


سوال

میرا سوتیلا بھائی فوت ہوگیا،  جس کے 4 بیویوں سے 12 بچے رہ گئے ،اور اب بچے اکیلے گھر میں رہ رہے ہیں، بچے چھوٹے ہیں، لہذاسرپرست کی ضرورت کے ناطے یعنی میں بچوں کا چچا بچوں کےساتھ رہ رہا ہوں، لیکن ان میں سے بچوں کا ایک ماموں بضد ہے اور کہہ رہا ہے کہ سرپرست میں ہوں، لہذا جو بھی فیصلہ ہوگا،  میرے مطابق ہوگا،اور ان کے ماموں کا خاندان اور ہمارے خاندان کے رہن سہن میں زمین آسمان کا فرق ہے ،جس کی وجہ سے ہم بچوں کو ماموں کی سرپرستی میں نہیں چھوڑ رہے، شرعی حساب سے  چچا یا ماموں کون  زیادہ قریب ہے ،اور کون سرپرست ہوسکتا ہے، راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورت ِ مسئولہ میں مذکورہ یتیم بچوں کا حقِ پرورش(لڑکوں کی سات سال اور لڑکیوں کی نو سال عمر ہونے  تک)والدہ کو  ہے،بشرطیکہ  وہ کسی ایسے شخص سے نکاح نہ کرے جو بچوں کے لیے محرم نہ ہو  ،مذکورہ  مدت مکمل ہونےکے بعدیہ کفالت ان کے دادا کے ذمے  ہے، وہ نہ ہو تو  بڑے بھائی جو برسرِ روز گار ہو،  اس کے ذمے، وہ نہ ہو تو چچا کے ذمے، وہ نہ ہو تو  چچا زاد بھائی کے ذمے ہے،لہذا  چچا کی موجودگی میں بچوں کے ماموں کو ان کی کفالت کا حق نہیں ہے۔

 اس کے علاوہ مذکورہ بچوں کے مالی معاملات کا ذمہ دار وہ شخص ہوگا،  جس کو  باپ نے انتقال سے پہلے مقرر کیا ہو، اسے اصطلاح میں ’’وصی‘‘ کہتے ہیں، اگر ایسا کوئی ’’وصی‘‘ مقرر نہ کیا ہو تو بچے کا ولی  اس کا دادا ہوگا، اگر دادا نہ ہو تو  دادا کا مقرر کردہ شخص یعنی ’’وصی‘‘ اس بچے کے مالی معاملات کا ذمہ دار ہوگا، اگر ایسا بھی نہ ہو تو  قاضی بچے کے مالی معاملات کا ذمہ دار مقرر کرے گا، اور قاضی کی عدمِ موجودگی کی صورت میں  خاندان کے با اثر لوگ جس شخص  کو بچے کے مالی معاملات  دیکھنے کے لیے مقرر کر دیں،  وہی اس بچے کے مالی معاملات کا ذمہ دار ہو گااور بچے کے مال میں تصرف کا حق اسی کو ہوگا  ۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

 "(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى. وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك) وبه يفتى لكثرة الفساد زيلعي.۔۔(قوله: وبه يفتى) قال في البحر بعد نقل تصحيحه: والحاصل أن الفتوى على خلاف ظاهر الرواية."

                                                                 ( کتاب الطلاق ،باب الحضانۃ ج3،ص566 ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(ثم) أي بعد الأم بأن ماتت، أو لم تقبل أو أسقطت حقهاأو تزوجت بأجنبي (أم الأم) وإن علت عند عدم أهلية القربى (ثم أم الأب وإن علت)بالشرط المذكور وأما أم أبي الأم فتؤخر عن أم الأب بل عن الخالة أيضا بحر (ثم الأخت لأب وأم ثم لأم) لأن هذا الحق لقرابة الأم (ثم) الأخت (لأب) ثم بنت الأخت لأبوين ثم لأم ثم لأب (ثم الخالات كذلك) أي لأبوين، ثم لأم ثم لأب، ثم بنت الأخت لأب ثم بنات الأخ (ثم العمات كذلك) ثم خالة الأم كذلك، ثم خالة الأب كذلك ثم عمات الأمهات والآباء بهذا الترتيب                                                                     "                                        

(کتاب الطلاق،باب الحضانۃ ج 3/563ط:سعید)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"وإذا وجب الانتزاع من النساء أو لم يكن للصبي امرأة من أهله يدفع إلى العصبة فيقدم الأب، ثم أبو الأب، وإن علا، ثم لأخ الأب وأم، ثم لأب، ثم ابن الأخ لأب وأم، ثم ابن الأخ لأب وكذا من سفل منهم، ثم العم لأب وأم، ثم لأب فأما أولاد الأعمام فإنه يدفع إليهم الغلام فيبدأ بابن العم لأب وأم، ثم بابن العم لأب والصغيرة لا تدفع إليهم ولو كان للصغير إخوة أو أعمام فأصلحهم أولى، فإن تساووا فأسنهم كذا في الكافي"

(کتاب الطلاق،الباب السادس عشر فی الحضانۃ،342/1ط:دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"الولاية في مال الصغير للأب ثم وصيه ثم وصي وصيه ولو بعد، فلو مات الأب ولم يوص فالولاية لأبي الأب ثم وصيه ثم وصي وصيه، فإن لم يكن فللقاضي ومنصوبه".

(‌‌كتاب الوصايا،فصل في وصايا الذمي وغيره،714/6ط:سعید)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101103

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں