بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یتیم بچی کی پرورش کا حق کس کو ہوگا؟


سوال

1-ایک عورت کے شوہر کا انتقال ہوگیا، اور اب اس نے عدت بھی گزاری ہے، اور اس شوہر سے اس کی ایک بیٹی بھی ہے، جس کی عمر ڈیڑھ سال ہے، اب اس بچی کو رکھنے اور پرورش کا حق دوسری جگہ شادی کرنے نہ کرنے کی صورت میں کس کو ہوگا؟

2-اگر وہ عورت کسی دوسری جگہ شادی کرلے تو اس صورت میں دوسرا شوہر بچی کے لیے محرم ہوگا یا نہیں؟

3-اور اس دوسرے  شوہر سے پیدا ہونے والی نرینہ اولاد اس بچی کی محرم ہوگی یا نہیں؟

وضاحت: بچی کی نانی اور دادا  زندہ ہیں۔

جواب

1-صورتِ مسئولہ میں اگر بیوہ کسی دوسری جگہ نکاح نہ کرے تو نو سال   کی عمر تک بچی کی پرورش کا حق اسی کو ہے، اگر اس کا کسی دوسری جگہ نکاح ہوتا ہے تو اگر اس کا نکاح بچی کے کسی ایسے نسبی رشتہ دار کے ساتھ ہوجائے جو بچی کا محرم ہو جیسے  چچا  تو اس  خاتون کے لیے بچی کی پرورش کا حق برقرار رہے گا، اگر کسی غیر محرم کے ساتھ ہوجائے تو عورت کا یہ حق ساقط ہو کر بچی کی پرورش کا حق بچی کی نانی کو ہوگا، جب بچی کی عمر نو سال ہوجائے تو بچی کی پرورش کا حق دادا کو ہوگا۔

2-اگر اس عورت  کا نکاح بچی کے کسی ایسے نسبی رشتہ دار کے ساتھ ہوجائے جو بچی کا محرم ہو جیسے چاچا  تو وہ تو پہلے سے ہی محرم ہے، اگر کسی غیر محرم سے ہوجائے تو  وہ بھی بچی کے لئے محرم بنے گا۔

3-اس دوسرے شوہر کی اس عورت کے بطن سے پیدا ہونے والی نرینہ اولاد اس بچی کے ماں شریک بھائی ہونے کی بنا پر محرم ہوں گے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"الحضانة (تثبت للأم ...ولو...بعد الفرقة) ...ثم) أي بعد الأم بأن ماتت، أو لم تقبل أو أسقطت حقهاأو تزوجت بأجنبي (أم الأم)...(و) الحاضنة (يسقط حقها بنكاح غير محرمه) أي الصغير...(والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية...(وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع...(وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك) وبه يفتى لكثرة الفساد زيلعي...في الرد...(قوله: كذلك) أي في كونها أحق بها حتى تشتهى،  (قوله: وبه يفتى) قال في البحر بعد نقل تصحيحه: والحاصل أن الفتوى على خلاف ظاهر الرواية...وفي الفتح: ويجبر الأب على أخذ الولد بعد استغنائه عن الأم لأن نفقته وصيانته عليه بالإجماع...وفي الخلاصة وغيرها: وإذا استغنى الغلام وبلغت الجارية فالعصبة أولى، يقدم الأقرب فالأقرب ولا حق لابن العم في حضانة الجارية."

(کتاب الطلاق، باب الحضانہ، ج:3، ص:555/569، ط:سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

" (و) حرم المصاهرة (بنت زوجته الموطوءة)...واحترز بالموطوءة عن غيرها، فلا تحرم بنتها بمجرد العقد وفي ح عن الهندية أن الحلوة بالزوجة لا تقوم مقام الوطء في تحريم بنتها، 

قلت: لكن في التجنيس عن أجناس الناطفي قال في نوادر أبي يوسف إذا خلا بها في صوم رمضان أو حال إحرامه لم يحل له أن يتزوج بنتها،  وقال محمد :’’يحل فإن الزوج لم يجعل واطئا حتى إذا كان لها نصف المهر‘‘   وظاهره أن الخلاف في الخلوة الفاسدة، أما الصحيحة فلا خلاف في أنها تحرم البنت."

(کتاب النکاح، باب المحرمات، ج:3، ص:30، ط:سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"أسباب التحريم أنواع: قرابة...(قوله: قرابة)...وفروع أبويه...الخ"

(کتاب النکاح، باب المحرمات، ج:3، ص:30، ط:سعید)

الموسوعہ الفقہیہ میں ہے:

"الأخ لغة من ولده أبوك وأمك، أو أحدهما. فإن كانت الولادة لأبوين فهو الشقيق، ويقال للأشقاء الإخوة :الأعيان،  وإن كانت الولادة من الأب فهو الأخ لأب، ويقال للإخوة والأخوات لأب: أولاد علات،  وإن كانت الولادة من الأم فهو الأخ لأم، ويقال للإخوة والأخوات لأم: الأخياف."

(مادہ:اخ، ج:2، ص:251، ط:دار السلاسل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100894

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں