بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یوم عاشوراء کا روزہ کس دن رکھیں؟


سوال

عاشوراء میں دس  محرم کا روزہ ہوتا ہے یا دس اور گیارہ محرم  دونوں دن کا؟ نیز میں نے 9 محرم کا روزہ نہیں رکھا اس کا کیا حکم ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ عاشوراء کے روزے رکھنا سنت  ہے، لہذا اگر کوئی شخص عاشوراء کا روزہ  رکھے تو اس کو  ثواب ملتا ہے، اور اگر روزہ نہ رکھے تو بھی کوئی گناہ نہیں ملتا،البتہ عاشوراء کا روزہ  چھوڑنے والااس روزے کی   فضیلت سے محروم رہتا ہے۔

یوم عاشورہ دس محرم الحرام ہے، نبی کریم ﷺ اور صحابہ    کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دس محرم الحرام کا روزہ اہتمام سے رکھا کرتے، لیکن انتقال سے قبل نبی کریم ﷺ نے یہود کی مخالفت کے لیے اس بات اظہار فرمایا تھا کہ  آئندہ سال اِن شاء اللہ ہم نویں تاریخ کو (بھی) روزہ رکھیں گے،یعنی نو اور دس محرم دونوں دن روزہ رکھیں گے، لیکن حضرت ابن ِعباس  فرماتے ہیں کہ آئندہ سال محرم سے پہلے ہی  آپ ﷺ کاوصال ہوگیا''۔ 

چناں چہ علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

" عاشوراء کے روزہ کی تین شکلیں ہیں:

(۱) نویں، دسویں اور گیارہویں تینوں کا روزہ رکھا جائے، 

(۲) نویں اور دسویں یا دسویں اور گیارہویں کا روزہ رکھا جائے،

(۳) صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔

ان میں پہلی شکل سب سے افضل ہے، اور دوسری شکل کا درجہ اس سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ سب سے کم ہے، اور  تیسری شکل کا درجہ جو سب سے کم ہے۔"

صورت مسئولہ میں سائل اگر 9/10/11 محرم تینوں دن روزہ  رکھے گا تو یہ سب سے زیادہ افضل ہے، اور اگر صرف نو اور دس یا دس اور گیارہ کا روزہ رکھے گا تو اس کی فضیلت پہلی صورت سے کم ہے،اور صرف دس محرم کا رکھے گا تو اس کی فضیلت سب سے کم ہے، لیکن روزہ کا ثواب یقینا ملے گا۔

صحیح مسلم میں ہے:

"حدثنا يحيى بن أيوب، حدثني إسماعيل بن أمية، أنه سمع أبا غطفان بن طريف المري، يقول: سمعت عبد الله بن عباس رضي الله عنهما، يقول: حين صام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء وأمر بصيامه قالوا: يا رسول الله إنه يوم تعظمه اليهود والنصارى فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فإذا كان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع» قال: فلم يأت العام المقبل، حتى توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم."

(كتاب الصيام، باب أي يوم يصام في عاشوراء،797/2،ط:دار إحياء التراث العربي - بيروت)

العرف الشذی شرح سنن ترمذی میں ہے:

  "وحاصل الشريعة: أن الأفضل صوم عاشوراء وصوم يوم قبله وبعده، ثم الأدون منه صوم عاشوراء مع صوم يوم قبله أو بعده، ثم الأدون صوم يوم عاشوراء فقط. والثلاثة عبادات عظمى، وأما ما في الدر المختار من كراهة صوم عاشوراء منفرداً تنزيهاً، فلا بد من التأويل فيه أي أنها عبادة مفضولة من القسمين الباقيين، ولا يحكم بكراهة؛ فإنه عليه الصلاة والسلام صام مدة عمره صوم عاشوراء منفرداً، وتمنى أن لو بقي إلى المستقبل صام يوماً معه."

(‌‌كتاب الصوم،‌‌باب ما جاء في الحث على صوم يوم عاشوراء،177/2، ط:دار التراث العربي -بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144501100972

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں