بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یمین فور اور ایک طلاق رجعی


سوال

میرے اور میری بیوی کےدرمیان کچھ لڑائی جھگڑا چل رہاتھا ، جس پر بیوی ناراض ہوگئ تھی، اور برقعہ پہن کر ماں کے گھر جارہی تھی ، تو میں نے غصہ میں کہا کہ اگر تم ماں کے گھر گئی تو"تم مجھ پر تین پتھر طلاق ہو"  اور میرا  کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ابھی یا پھر کبھی اس طرح لڑائی سے ناراض ہوکر ماں کے گھر گئی تو ایساہوگا، پھر اس وقت میری بیوی ماں کے گھر نہیں گئی اور بیس پچیس دن بعد  میں خود ان کو والدہ کے گھر لے کر گیا، پھر اس کے بعد وہ ماں کے گھر جاتی رہی، پھر ایک مرتبہ بیوی نے مطالبہ کیا کہ مجھے ماں کے گھر لے جاؤ،  تو میں نے کہاکہ اگر ماں کے گھر کا نام لیا تو تم مجھ پر طلاق ہوگی، پھر اس کے بعد بیوی نے ماں کے گھر کا نام( یعنی جانے کےلیے )نہیں کہا اور پھر میں خود ہی لے کر گیا، ان معاملات کے بعد بیوی نے کہا کہ شادی کو تین سال ہوگئے ہیں اور اس دوران آپ نے دوبار طلاق کا کہا ہے، تو میں  نےغصہ میں کہا ، کہ تیسری بار  بولوں؟ ابھی ہولتاہوں" تم مجھ پر طلاق ہو، جاؤ امی کے گھر"  پھر بیوی امی  کے گھر نہیں گئی، کچھ دنوں بعد میں خود لے کر گیا، اب معلوم یہ کرنا ہے کہ اس صورتِ حال میں کتنی طلاقیں واقع ہوگئی ہیں؟ اور اب ہمارے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے ادا کردہ  الفاظ " اگر تم ماں کے گھر گئی تو تم مجھ پر تین پتھر طلاق ہو"اور"اگر ماں کے گھر کا نام لیا تو تم مجھ پر طلاق ہوگی" سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، البتہ سائل کا تیسری دفعہ یہ کہنا کہ  "تم مجھ پر طلاق ہو ، جاؤ ماں کے گھر"  ان الفاظ سے سائل کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی ہے،اگر سائل  عدت کے دوران رجوع کرتا ہے ،تو نکاح حسبِ سابق برقرار رہے گا، اورآئندہ  کےلئےسائل کو صرف دوطلاقوں کااختیار ہوگااور اگر سائل نے عدت کے دوران رجوع نہیں کیا،تو نکاح  ختم ہوجائے گا،اور میاں  بیوی کےلئے ایک ساتھ رہناجائز نہیں ہوگا۔

اور رجوع کا  طریقہ یہ ہےکہ شوہر  بیوی سے کہہ دے کہ" میں نے رجوع کیا "اس پردوگواہ بھی بنالےاوراس کی تحریر بھی لکھ لے ،اورگواہوں کے دستخط بھی کرالے ؛تاکہ ضرورت کے وقت کام آئے۔

دررالحکام شرح غررالاحکام  میں ہے:

(و) شرط (للحنث في إن خرجت مثلا لمريد الخروج ‌فعله ‌فورًا) يعني لو أرادت المرأة الخروج مثلًا فقال الزوج: إن خرجت فأنت طالق فجلست ساعةً ثم خرجت لم يحنث و هذه تسمى يمين الفور، تفرد أبو حنيفة - رحمه الله تعالى - بإظهارها، و وجهه أن مراد المتكلم الزجر عن ذلك الخروج عرفًا و مبنى الأيمان على العرف."

(باب حلف الفعل، ج:2،ص:48،ط:دار احیاء)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و شرط للحنث في) قوله: (إن خرجت مثلًا) فأنت طالق أو إن ضربت عبدك فعبدي حر (لمريد الخروج) والضرب (فعله فورًا)؛ لأنّ قصده المنع عن ذلك الفعل عرفًا و مدار الأيمان عليه، و هذه تسمى يمين الفور تفرّد أبو حنيفة - رحمه الله - بإظهارها و لم يخالفه أحد."

وفی الرد:

"(قوله: فورًا) سئل السغدي بماذا يقدر الفور؟ قال بساعة، واستدل بما ذكر في الجامع الصغير: أرادت أن تخرج فقال الزوج إن خرجت فعادت وجلست وخرجت بعد ساعة لايحنث حموي عن البرجندي، و لايشترط لعدم حنثه إذا خرجت بعد ساعة تغير تلك الهيئة الحاصلة مع إرادة الخروج، يشير إليه قول الفتح تهيأت للخروج، فحلف لاتخرج فإذا جلست ساعة ثم خرجت لايحنث؛ لأن قصده منعها من الخروج الذي تهيأت له فكأنه قال: إن خرجت الساعة، و هذا إذا لم يكن له نية فإن نوى شيئا عمل به شرنبلالية."

(کتاب الایمان ،ج:3،ص:762،ط:سعید)

درر الحکام میں ہے:

"(وتصح) أي الرجعة فيما دون الثلاث من طلقة وطلقتين وهذا في الحرة ...(وإن أبت) المرأة عن الرجعة فإن الأمر بالإمساك مطلق فيشمل التقادير.(وندب إعلامها) أي إعلام الزوج إياها بالرجعة لأنه لو لم يعلمها لربما تقع المرأة في المعصية ...(و) ندب (الإشهاد) أيضا احترازا عن التجاحد وعن الوقوع في مواقع التهم لأن الناس عرفوه مطلقا فيتهم بالقعود معها، و إن لم يشهد صحت."

(کتاب الطلاق،باب الرجعۃ:ج،1،/ص،384تا386:داراحیاء)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100988

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں