بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

يمينِ فور كا حكم


سوال

سائل کی بیوی عرصہ پانچ سال سے ناراض ہو کر اپنے والدین کی ہاں قیام پذیر ہے۔یہ واضح رہے کہ اس عرصہ میں سائل کا بیوی کے پاس ان کے والدین کے گھرآنا ،جانا اوراس کے ساتھ میل جول اورازدواجی تعلق قائم رہا ہے،  سائل  8 اکتوبر 2022 کو   ان کے گھر میں گیا اور بیوی سے جو دوسرے روم تھی کو ایس ایم ایس پر کہا کہ  "آپ میرے پاس  اگر نہ آئیں  (پاس سے میری مراد روم میں) تو میری طرف سے طلاق ہے طلاق ہے طلاق ہے۔" اس پر وہ اسی ٹائم میرے پاس آئی اور مزید یہ کہ اس بات کے بعد بھی جنوری 2023تک ہمارا ازدواجی تعلق قائم رہا ہے۔ ماہ جنوری 2023 کے دوران سائل کی بیوی نے اس حوالہ سے دریافت کیاکہ کیا آپ نے درج بالا الفاظ کہے تھے؟ کیا اس سے ہماری طلاق ہو گئی ہے؟ جس کے جواب میں سائل نے  وضاحت کے طور پر جواب دیا :کہ جہاں تک میرا علم و فہم ہے رشتہ ختم نہیں ہوا،  کیوں کہ آپ  فورًا  ہی  میرے پاس کمرے میں  آگئی تھیں، البتہ آپ پھربھی اپنی تسلی کے  لیے کسی مفتی صاحب سے دریافت کریں اور میں بھی راہنمائی حاصل کرتا ہوں۔ شرعی اعتبار سے معاملہ کی بابت راہنما ئی فرمائیں  کہ کیا اس سے طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں ؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سائل نے جب مذکورہ الفاظ"آپ اگر میرے پاس کمرے میں   نہ آئی تو میری طرف سے طلاق ہے ،طلاق ہے ،طلاق ہے "کہا اور سائل کی بیوی فورًا  سائل کے کہنے سے اس کے پاس کمرے میں  آگئی تھی ،تو اس سے سائل  کی بیوی  پر  مذکورہ  الفاط سے کو ئی طلاق واقع نہیں ہوئی ،دونوں  کا نکاح برقرار ہے ،دونوں میاں بیوی کی حیثیت سے   باہم رہ سکتے ہیں ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"( وشرطه للحنث في ) قوله: ( إن خرجت مثلاً ) فأنت طالق أو إن ضربت عبدك فعبدي حر ( لمريد الخروج ) والضرب ( فعله فوراً ) لأن قصده المنع عن ذلك الفعل عرفاً، ومدار الأيمان عليه، وهذه تسمى يمين الفور تفرد أبو حنيفة رحمه الله بإظهارها ولم يخالفه أحد". 

"وفي طلاق الأشباه: إن للتراخي إلا بقرینة الفور ․․․․ فإذا قال لها: إن خرجت فکذا، وخرجت فوراً أو بعد یوم مثلاً حنث".

(کتاب الطلاق،مطلب في يمين الفور،ج: 3،ص: 763،ط:سعید) 

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وإذا أضافه إلى الشرط وقع ‌عقيب ‌الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

(كتاب الطلاق ،الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة ان واذاوغيرهما، ج:1، ص: 420، ط: دارالفكر)

البحر الرائق میں ہے  :

"‌يقع ‌الطلاق ‌بعد ‌وجود ‌الشرط."

(كتاب الطلاق ،باب تعليق الطلاق ،ج :ص،8،ط :دارالكتاب الاسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101965

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں