بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

یمین علی الفور میں طلاق کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین وشرع متین مندرجہ ذیل مسئلہ میں کہ شوہر نے کسی وقتی ناراضگی کی وجہ سے اپنی بیوی سے کہا کہ تم اپنی ماں سے بات نہیں کروگی؛ بیوی نے کہا کہ میں اپنی ماں سے بات کروں گی، دیکھ لیتی ہوں کہ مجھے کون روکتا ہے،نیز بیوی نے یہ بھی کہا کہ تو (مخاطب شوہر) چھوٹ سکتا ہے؛ لیکن میں اپنی ماں کو کبھی نہیں چھوڑ سکتی ، شوہر منع کر رہا ہے کہ تم بات نہیں کروگی اور بیوی بار بار یہ دہرا رہی ہے کہ تو چھوٹ سکتا ہے؛ لیکن میں اپنی ماں کو نہیں چھوڑسکتی ، بیوی خاموش ہی نہیں ہورہی تھی، تب شوہر نے کہاکہ: ٹھیک ہے، تو اپنی ماں سے بات کرکے دِکھا، اگر تم بات کروگی تو تم کو تینوں طلاق۔"،  شوہر کی نیت یہ ہے کہ بیوی خاموش نہیں ہورہی ہے، خاموش کرنے کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں،شوہر کی نیت  ماں سے ہمیشہ بات منقطع کرنے کی نہیں ہے، اس دن بھی یہ منہ لگائے جارہی تھی، خاموش ہو ہی نہیں رہی تھی،نیت یہی تھی کہ منہ لگانا بند کرے ابھی بات نہیں کر سکتی ہے، اگر حالت ٹھیک ہوگئی ہے تو بات کر سکتی ہے؛ اس لیے شوہر نے اسی وقت کہا تھا کہ تم بات کر سکتی ہو، تم میرے ساتھ منہ لگاتی ہوتب تو میں اس طرح بولتا ہوں، اگر تم میرے ساتھ ٹھیک رہو گی تو میں پاگل نہیں ہوں کہ ایسے گندے الفاظ استعمال کروں۔

تو مسئلہ دریافت یہ کرنا ہے کہ طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟ لڑکی نے اس وقت ماں سے بات نہیں کی تھی، رات میں بات کی تھی اور یہ بحث دوپہر میں ہوئی تھی، جب کہ شوہر یہ الفاط صرف فی الحال خاموش کرنے کے لیے بول رہا تھا، ہمیشہ کی نیت نہیں ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کی بیوی اگر واقعۃً  اس وقت اپنی ماں سے بات کرنے کی ضد کررہی تھی اور شوہر نے اس کو خاموش کرنےاور فی الوقت ماں سے بات کرنے سے روکنے کے لیے یہ کہا تھاکہ: ٹھیک ہے ، تو اپنی ماں سے بات کرکے دِکھا، اگر تم بات کرو گی تو تم کو تینوں طلاق۔"اور مذکورہ الفاظ بولتے وقت بیوی کو ماں سے ہمیشہ بات کرنے سے روکنے کی نیت نہیں تھی،اور بیوی نے بھی معاملہ رفع دفع ہونے اور کافی  وقت گزرنے کے بعد اپنی ماں سے بات کی ہے،اس وقت بات نہیں کی تو ایسی صورت میں مذکورہ الفاظ "یمین فور " کے تھے اور "یمین فور " ہونے کی وجہ سے بیوی پر کسی قسم کی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، میاں بیوی کا نکاح بدستور قائم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي طلاق الأشباه إن للتراخي إلا ‌بقرينة ‌الفور ومنه طلب جماعها فأبت فقال: إن لم تدخلي معي البيت فدخلت بعد سكون شهوته حنث. وفي البحر عن المحيط طول التشاجر لا يقطع الفور.

وفي الرد:(قوله إن للتراخي إلخ) احترز بها عن إذا فإنها للفور ففي الخانية إذا فعلت كذا فلم أفعل كذا قال أبو حنيفة إذا لم يفعل على أثر الفعل المحلوف عليه حنث، ولو قال إن فعلت كذا فلم أفعل كذا فهو على الأبد وقال أبو يوسف على الفور أيضا اهـ ومعنى كون إن للتراخي أنها تكون للتراخي وغيره عند عدم قرينة الفور، والمراد فعل الشرط الذي دخلت عليه، وما رتب عليه فإذا قال لها إن خرجت فكذا وخرجت فورا أو بعد يوم مثلا حنث إلا لقرينة الفور، فيتقيد به كما مر ومنه ما مثل به وكذا ما في الخانية إن دخلت دارك فلم أجلس فهو على الفور اهـ أي الجلوس على فور الدخول."

(كتاب الايمان، ج:3، ص:763،ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406100504

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں