بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

یکطرفہ خلع کی شرعی حیثیت کیا ہے؟


سوال

ایک عورت عدالت کے ذریعہ اپنے خاوند سے خلع لیتی ہے اور اولاد بھی تقریبا 14سے 15 سال کی ہو،تو اولاد پہ خاوند اور بیوی میں سے کس کا حق ہوگا؟نیز خاوند کی غیر موجودگی میں خلع ہوجائیگا یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ از روئے شرع خلع کے وقوع کے لیےبیوی کی جانب سے شوہر کے نکاح سے آزادی کے حصول کے لیے مہر کی  معافی کے بدلہ  میں  خلع کا مطالبہ کرنا اور شوہر کا اس مطالبہ کو قبول کرکے خلع دینا ضروری ہوتا ہے، پس اگر شوہر کی جانب سے قبول نہ کیا جائے تو اس صورت میں شرعا خلع واقع نہیں ہوتا، جس کے سبب یکطرفہ خلع کو شرعی خلع قرار نہیں دیا جا سکتا۔

باقی عدالتی فیصلہ پر شرعی رائے دہی تب ہی مناسب ہے کہ جب عدالتی فیصلہ سامنے آئے، اور اس کا جائزہ لیا جائے، لہذا اگر فیصلہ کے کاغذات مل چکے ہوں تو وہ مع ترجمہ درخواست کے ساتھ منسلک کرکے مسئلہ معلوم کرلیا جائے۔

مذکورہ شخص کے دونوں بچوں کی  پرورش کی عمر چونکہ پوری ہوچکی ہے اور اب  تعلیم و تربیت  کامرحلہ ہے، جس کا   حق شرعا  بچوں کے  والد  کو حاصل ہے، ماں انہیں اپنے پاس رکھنے کی شرعا مجاز نہیں۔بیٹی کے نان و نفقہ کی ذمہ داری اس کی شادی ہونے تک باپ پر ہوگی، البتہ بیٹا اگر  کمانے پر قادر ہو  (  یعنی ذہنی یا  جسمانی معذوری کا شکار نہ ہو)  تو اس صورت میں اس کے نفقہ کی ذمہ داری شرعا  باپ پر نہ ہوگی، تاہم اگر وہ یہ ذمہ داری اٹھائے رکھے گا تو یہ بیٹے پر احسان ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الخلع إزالة ملك النكاح ببدل بلفظ الخلع، كذا في فتح القدير."

( الباب الثامن في الخلع وما في حكمه وفيه ثلاثة فصول الفصل الأول في شرائط الخلع وحكمه وما يتعلق به، ١ / ٤٨٨، ط: دار الفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

" وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول".

(كتاب الطلاق، باب الخلع ، ٣ / ٤٤١، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و نفقة الإناث واجبة مطلقًا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال، كذا في الخلاصة.

و لايجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزًا عن الكسب لزمانة، أو مرض و من يقدر على العمل لكن لايحسن العمل فهو بمنزلة العاجز، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ١ / ٥٦٢، ط: دار الفكر)

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر میں ہے:

"(و نفقة البنت بالغة) أو صغيرة و لم يذكرها لإغناء الطفل (والابن) البالغ (زمنًا) بفتح الزاي و كسر الميم أي الذي طال مرضه زمانًا كما في المغرب أو الذي لايمشي على رجليه كما في المذهب و كذا أعمى و أشل و غيرهما فقير تجب (على الأب خاصة و به يفتى) هذا ظاهر الرواية."

(باب النفقة، نفقة البنت بالغة أو صغيرة، ١ / ٤٩٨، ط: دار إحياء التراث العربي)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"و الذي قلنا في الصغار من الأولاد كذلك في الكبار إذا كن إناثًا؛ لأنّ النساء عاجزات عن الكسب؛ و استحقاق النفقة لعجز المنفق عليه عن كسبه، و إن كانوا ذكورًا بالغين لم يجبر الأب على الإنفاق عليهم لقدرتهم على الكسب، إلا من كان منهم زمنًا، أو أعمى، أو مقعدًا، أو أشل اليدين لاينتفع بهما، أو مفلوجًا، أو معتوهًا فحينئذ تجب النفقة على الوالد لعجز المنفق عليه عن الكسب، و هذا إذا لم يكن للولد مال فإذا كان للولد مال فنفقته في ماله؛ لأنه موسر غير محتاج و استحقاق النفقة على الغني للمعسر باعتبار الحاجة إذ ليس أحد الموسرين بإيجاب نفقته على صاحبه بأولى من الآخر."

(كتاب النكاح، باب نفقة ذوي الأرحام، ٥ / ٢٢٣، ط: دار المعرفة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و بعدما استغنى الغلام و بلغت الجارية فالعصبة أولى يقدم الأقرب فالأقرب كذا في فتاوى قاضي خان. ويمسكه هؤلاء إن كان غلاما إلى أن يدرك فبعد ذلك ينظر إن كان قد اجتمع رأيه وهو مأمون على نفسه يخلى سبيله فيذهب حيث شاء، وإن كان غير مأمون على نفسه فالأب يضمه إلى نفسه ويوليه ولا نفقة عليه إلا إذا تطوع، كذا في شرح الطحاوي.

و الجارية إن كانت ثيبًا و غير مأمونة على نفسها لايخلى سبيلها ويضمها إلى نفسه، وإن كانت مأمونة على نفسها فلا حق له فيها ويخلى سبيلها وتنزل حيث أحبت كذا في البدائع.

وإن كانت البالغة بكرًا فللأولياء حق الضم، وإن كان لا يخاف عليها الفساد إذا كانت حديثة السن وأما إذا دخلت في السن واجتمع لها رأيها وعفتها فليس للأولياء الضم ولها أن تنزل حيث أحبت لايتخوف عليها، كذا في المحيط."

( كتاب الطلاق، الباب السادس عشر في الحضانة، ١ / ٥٤٢ - ٥٤٣، ط: دار الفكر)۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100273

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں