بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

یکطرفہ خلع کے عدالتی فیصلہ کو تنسیخ نكاح کب قرار دیا جا سکتا ہے؟


سوال

عدالت خلع کی ڈگری دیتے وقت تین سمن بھیجتی ہے خاتون کے شوہر کو، کیا شوہر کی جانب سے اعراض اور بلا وجہ عدالت حاضر نہ ہونے کو نکول مان کر عدالتی یک طرفہ خلع جاری کرنے کے فیصلہ کو تنسیخ یا فسخ قرار دیاجاسکتا ہے جبکہ شوہر واقعتا متعنت ہو؟

بعض مفتیان کرام اسے فسخ قرار دیتے ہیں آنجناب کی رائے درکار ہے۔

فتاوی میں یہ بات تو ملتی ہے بعض صورتوں کے متعلق کہ اگر تنسیخ کی شرائط پائی جائیں تو اسے تنسیخ قرار دیا جائے صرف عنوانِ خلع کا اعتبار نہ کیا جائے، مگر عدالت شرعی گواہوں کی پرکھ نہیں کرتی، جیسے وکیل اسے بتا دے گا وہ اسی کے مطابق فیصلہ کردیتی ہے، الگ سے تحقیقات کے بکھیڑے نہیں کرتی۔

جواب

واضح رہے کہ خلع صحیح  ہونے کے لیے بیوی کی جانب سے اپنے مہر يا كسي اور چيز  کے عوض خلع کا مطالبہ کرنا، اور شوہر کی جانب سے اس مطالبہ کو  قبول کرنا شرعا ضروری ہے،  پس اگر شوہر  اپنی بیوی کے مطالبہ خلع کو تسلیم نہ کرے تو  کسی اور کو  شرعاً یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ میاں بیوی کے درمیان تفریق یا تنسیخ نکاح کا فیصلہ  دے، نیز شوہر کا تسلیم نہ کرنا، یا عدالت  کے بلاوے پر حاضر نہ ہونے کو ،  قسم سے انکار ( نکول عن الیمین: یعنی مدعا علیہ کا اپنا دفاع نہ کرنا، جوکہ اپنے دفاع میں  قسم اٹھانے  سے انکار کو مستلزم ہوتا ہے) کے قائم مقام بنانا اور اسے  شوہر   کی رضامندی قرار دینا شرعا درست نہیں، اور  اس بنیاد پر  یکطرفہ  طور پر بیوی کے حق میں خلع  کا  فیصلہ صادر کرنے  سے شرعا ایسا فیصلہ   معتبر نہیں ہوتا، کیوں کہ خلع میں شوہر کی جانب سے خلع کو قبول کرنا شرط ہے۔

البتہ اگر  شوہر نامرد ہو، یا مجنون ہو، یا مفقود (لاپتا ہو) ہو یا متعنت (ظالم) ہو کہ بیوی کا نان نفقہ نہ دیتا ہو اور ظلم کرتا ہو۔  جس پر  بیوی  نکاح سے خلاصی کے لیے عدالت سے رجوع کرے،  اپنے  دعوی کو شرعی گواہوں کے ذریعے عدالت میں  ثابت  کرے۔   پھر عدالت تنسیخ ِ نکاح کا فیصلہ دے، تو عدالت  کا ایسا فیصلہ معتبر  ہوگا ا اور میاں بیوی میں جدائی  واقع ہوجائے گی ، پس  اگر   عدالت   نے فیصلہ  دیتے وقت  ان شرائط کی رعایت  نہیں رکھی، تو ایسا  یکطرفہ عدالتی  فیصلہ  کو شرعا  تنسیخِ نکاح  قرار نہیں دیا جائے گا۔

پس صورت مسئولہ میں  شوہر کی غیر موجودگی  یا عدم رضامندی   کی صورت میں  عدالت  کی جانب سے یکطرفہ  خلع کی جو ڈگری جاری کی جاتی ہے، وہ شرعا معتبرنہیں ہے، اور ایسا فیصلہ  شرعا غير معتبر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ  ایسے فیصلہ    کا مدار   فیملی کورٹ ایکٹ  1964  کے دفعہ 10 کی شق 4 میں کی گئی ترمیم پر ہوتا ہے، جس کے مطابق   میاں بیوی کے درمیان صلح کی کوشش ناکام ہونے کی صورت میں  عدالت کو  في الفور  تنسیخ  نکاح کی ڈگری  جاری کرنے  کا حکم دیا گیا ہے،خواہ شوہر اس تنسیخ پر راضی ہو یا نہ ہواور تنسیخ کےلیے من جملہ  وجوہات میں سے کوئی شرعی وجہ  پائی جائے یا نہ پائی جائے،  اور نہ ہی عدالت کو گواہوں  پر جرح کرنے کا پابند کیا گیا ہے، نیز   نکاح کے موقع پر  بیوی نے جو مہر   وصول کیا تھا،  وہ شوہر  کو واپس  دلانے کی ذمہ داری بھی عدالت کی  قرار دی گئی ہے، پس عدالت کا تنسیخ نکاح کی شرائط معتبرہ  کی رعایت  نہ رکھنا اور حق مہر کی واپسی کا حکم دینا   ثابت  کرتا   ہے کہ تنسیخ  کا حکم  درحقیقت  خلع کا یکطرفہ فیصلہ ہے، جو کہ شرعا معتبر نہیں ہوتا، اور   مشاہدہ یہی ہے کہ تنسیخ کی وجوہات  نہ پائی جانے کے باوجود  اور تنسیخِ  نکاح کی شرائط معتبرہ کی رعایت  نہ کرتے ہوئے عدالت لڑکی کے مطالبہ پر اسے یکطرفہ  طور پر خلع کی ڈگری جاری کر دیتی ہے، جو کہ شرعا معتبر نہیں ہوتی، نکاح بدستور قائم رہتا ہے، جس کی وجہ سے کسی اور شخص سے نکاح کرنا لڑکی کے لیے ناجائز ہوتا ہے، کیوں کہ دوسرا نکاح درحقیقت  نکاح پر نکاح ہوتا ہے، جو کہ ناجائز ہے،  لہذا  دوسرا نکاح شرعا فاسد ہوتا ہے۔

THE FAMILY COURTS ACT, 1964

(Act XXXV of 1964)

10.Pre-trial proceedings

[(4)Subject to subsection (5), if compromise is not possible between the parties, the Family Court may, if necessary, frame precise points of controversy and record evidence of the parties.]

Substituted by the Family Courts (Amendment) Act 2015 (XI of 2015) for the following:

“(4)  If no compromise or reconciliation is possible the Court shall frame the issues in the case and fix a date for recording of evidence:

Provided that notwithstanding any decision or judgment of any Court or tribunal, the Family Court in a suit for dissolution of marriage, if reconciliation fails, shall pass decree for dissolution of marriage forthwith and shall also restore to the husband the Haq Mehr received by the wife in consideration of marriage at the time of marriage.”

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"في الملخص و الايضاح: الخلع عقد يفتقر إلى الإيجاب والقبول يثبت الفرقة ويستحق عليها العوض".

( كتاب الطلاق، الفصل السادس العشر في الخلع، ٣ / ٢٨، ط: دار الكتب العلمية )

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

" وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول بخلاف النوع الأول فإنه إذا قال: خالعتك ولم يذكر العوض ونوى الطلاق فإنه يقع الطلاق عليها، سواء قبلت أو لم تقبل؛ لأن ذلك طلاق بغير عوض فلا يفتقر إلى القبول وحضرة السلطان ليست بشرط لجواز الخلع عند عامة العلماء فيجوز عند غير السلطان وروي عن الحسن وابن سيرين أنه لا يجوز إلا عند السلطان، والصحيح قول العامة لما روي أن عمر وعثمان وعبد الله بن عمر - رضي الله عنهم - جوزوا الخلع بدون السلطان، ولأن النكاح جائز عند غير السلطان فكذا الخلع."

( كتاب الطلاق، فصل في شرائط ركن الطلاق وبعضها يرجع إلى المرأة، ٣ / ١٤٥، ط: دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

" وأما شرط وجوب العوض وهو المسمى في عقد الخلع له شرطان: أحدهما قبول العوض؛ لأن قبول العوض كما هو شرط وقوع الفرقة من جانبه فهو شرط لزوم العوض من جانبها لما ذكرنا، سواء كان العوض المذكور في الخلع من مهرها الذي استحقته بعقد النكاح من المسمى ومهر المثل أو مالا آخر وهو المسمى بالجعل فهذا الشرط يعم العوضين جميعا."

( كتاب الطلاق، فصل في شرائط ركن الطلاق وبعضها يرجع إلى المرأة، ٣ / ١٤٧، ط: دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة، كذا في السراج الوهاج."

( كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم السادس المحرمات التي يتعلق بها حق الغير، ١ / ٢٨٠، ط: دارالفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100667

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں