میری بیوی نے غلط الزامات کی بنیاد پر عدالت سے خلع حاصل کی۔ میری اجازت اور قبولیت کے بغیر اور میں نے اس کے ساتھ کوئی برا نہیں کیا اور عدالت میں میں نے ریمارکس دیئے کہ تمام الزامات غلط ہیں اور میں اس کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں
واضح رہےکہ خلع دیگر مالی معاملات کی طرح ایک معاملہ ہے جس طرح دیگر مالی معاملات کے لیے عاقدین کی رضامندی شرعاََ ضروری ہوتی ہے اسی طرح خلع کے معتبر اور درست ہونے کے لیے بھی زوجین کی رضامندی شرعًا ضروری ہوتی ہے،کوئی ایک فریق راضی ہو دوسرا راضی نہ ہو تو ایسا خلع شرعًا معتبر نہیں ہوتا،خواہ وہ عدالتی خلع ہی کیوں نہ ہو، بلکہ نکاح بدستور قائم رہتا ہےلہذا صورت مسئولہ میں سائل کا بیان اگر واقعۃً درست ہے کہ اس کی بیوی نے بغیر اس کی رضامندی کے عدالت سے یکطرفہ خلع لیا ہے تو یہ خلع شرعا معتبر نہیں،نیز عدالتی فیصلہ کو تنسیخِ نکاح قرار دینے کے لیے چند شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، اور وہ یہ کہ یا تو شوہر نامرد ہو، یا مجنون ہو، یا مفقود (لاپتا ہو) ہو یا متعنت (ظالم) ہو کہ بیوی کا نان نفقہ نہ دیتا ہو، اور ظلم کرتا ہو، پھر عورت اپنے اس دعوی کو شرعی گواہوں کے ذریعے عدالت کے سامنے ثابت بھی کرے، صورتِ مسئولہ میں منسلکہ عدالتی یک طرفہ فیصلہ کو شرعاً تنسیخِ نکاح بھی قرار نہیں دیا جاسکتا،کیوں کہ تنسیخ ِنکاح کی شرائط نہیں پائی گئیں،لہذاسائل کا نکاح شرعاًبدستور برقرار ہے ۔
فتح القدیر میں ہے:
"فالصحيح إزالة ملك النكاح ببدل بلفظ الخلع."
(کتاب الطلاق ، باب الخلع جلد 4 ص: 211 ط: دارالفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."
(کتاب الطلاق ،باب الخلع جلد 3 ص: 441 ط: دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144503100498
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن