میری شادی 2013 فروری میں والدین کی رضامندی سے ہوئی تھی،بے جا مار پیٹ کرنا اور گالیاں دینا شوہر کا روز کا معمول تھا، ہر ایک کا غصہ مجھ پر آکر مار کر نکالتا تھا،ان سب سے تنگ آکر میں نے 14 ستمبر 2014ء کو بات بڑھ جانے پر اپنے والدین کے گھر آگئی تھی،شوہر سے طلاق کی بات کی گئی تو وہ مکر گیا کہ میں حق مہر نہیں دوں گا،اسے یہ بھی کہا گیا کہ حق مہر نہ دو، طلاق دے دو، پھر بھی وہ نہ مانا،پھر ہم نے کورٹ سے رابطہ کیا،کورٹ سے اس کو 4-3 نوٹس بھیجے گئے، پھر بھی وہ کورٹ میں نہ آیا تو کورٹ نے یک طرفہ فیصلہ سنا دیا اور خلع کی ڈگری جاری کردی،پھر میں نے عدت کی، جس کے بعد جہیز کے سامان کا کیس چلا، وہ بھی دو سال استعمال کرنے کے بعد کورٹ سے لوگ بھیجے گئے، پھر سامان واپس کیا ،کورٹ سے خلع کے فیصلے اور عدت کے بعد 7 سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور سابقہ شوہر سے کوئی رابطہ نہیں، اس صورت میں خلع واقع ہو گئی ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ خلع میاں بیوی کی باہمی رضامندی سے انجام پانے والا ایک مالی معاملہ ہے،میاں بیوی میں سے کوئی ایک راضی ہو اور دوسرا راضی نہ ہو تو ایسا خلع شرعا معتبر نہیں،البتہ شریعت نے عورت کو مخصوص عوارض کی موجودگی میں اسلامی عدالت سے رجوع کرکے شکایات کو گواہوں سے ثابت کرکے نکاح فسخ کرانے کا اختیار دیاہے۔
صورتِ مسئولہ میں سائلہ نے عدالت سے جو یکطرفہ خلع حاصل کی ہے،اس کا مطالعہ کیے بغیر اس خلع نامہ کا حکم بیان کرنا مشکل ہے،لہذا سائلہ خلع نامہ اور اس کی مکمل تفصیلات ارسال کرکے جواب حاصل کرے۔
بدائع الصنائع للکاسانی میں ہے :
"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول الخ."
(کتاب الطلاق،فصل واماالذی یرجع الی المرأۃ،ج:۳،ص:۱۴۵،ط:دار الکتب العلمیۃ،بیروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144308100110
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن