بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

یک طرفہ عدالتی خلع


سوال

میری بیوی نے 2016 میں مجھ سے خلع لیا تھا ،اس کے ایک سال بعد تک ایک نوٹس آیا، جس میں Maintanance کے حوالے سے ذکر تھا تو  میں وہاں گیا اور جج صاحبہ نے مجھ سے کہا کہ آپ کا خلع  4 مہینے پہلے ہوگیا،تو میں نے جج کے سامنے اپنی بیوی اور ساس کو یہ جواب دیا کہ میں اس خلع کو نہیں  مانتا؛ کیوں کہ میں نے اپنے منہ سے یہ کبھی نہیں کہاتھا اور میں نہ ہی میں نے  کوئی دستخط کیے اور نہ  ہی میں اس وقت وہاں موجود تھا اور میرا ایک بیٹا  بھی ہے اور ہم دونوں دوبارہ ملنا چاہتے ہیں، اتنے عرصے کے دوران میں نے دوسری شادی کرلی تھی اور اب تک اس سے کوئی  اولاد نہیں ہے ،اس سلسلے میں شرعی روشنی ڈالیں  تاکہ دونوں کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو ۔

وضاحت:میری پہلی  دوسری شادی کے باوجود ساتھ رہنے پر راضی ہے،کیا کورٹ کے اس فیصلے سے طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں ؟ اب ہم دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں یا تجدید نکاح کی ضرورت ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ خلع ایک مالی معاملہ کی طرح ہے ،جس  طرح دیگر  مالی معاملات میں جانبین   کی رضامندی ضروری ہوتی ہے اسی طرح خلع کے معتبر ہونے کے لیے  بھی زوجین کی رضامندی  شرعا ً ضروری ہوتی ہے ۔صورتِ مسئولہ  میں  چوں کہ عدالت نے  شوہر کی غیر موجودگی میں خلع کا فیصلہ کیا ہے جس کو شوہر نے قبول نہیں کیا ہے ،لہٰذا شرعا ً  یہ خلع معتبر نہیں ،نکاح بدستور قائم ہے ،میاں بیوی تجدید نکاح کے بغیر بھی ساتھ رہ سکتے ہیں ۔

وفي بدائع الصنائع :

"و أما ركنه فهو الإيجاب و القبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة و لايستحق العوض بدون القبول."

(4/ 430ط:رشيدية)

وفي المبسوط للسرخسي:

"فيحتمل الفسخ بالتراضي أيضًا، و ذلك بالخلع، و اعتبر هذه المعاوضة المحتملة للفسخ بالبيع و الشراء في جواز فسخها بالتراضي."

(6/ 171ط:دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144305100740

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں