بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

یکم رمضان کو بیوہ ہونے والی عورت کی عدت کا حکم


سوال

مجھے اپنی عدت کے متعلق پوچھنا ہے، یکم رمضان المبارک کو میرے شوہر کی وفات ہوئی ہے ، میری عدت کا کیا حکم ہے؟ 

وضاحت: انتقال  پہلے روزے کو صبح سوا دس سے ساڑھے دس کے درمیان ہوا ہے۔

جواب

واضح رہےکہ شوہر کا انتقال قمری (اسلامی) مہینے کی ابتدا یعنی پہلی تاریخ میں ہو تو عدت چاند کے مہینوں کے اعتبار سے پوری کرنا لازم ہوگی، خواہ کوئی مہینہ انتیس کا ہی کیوں نہ ہو، یہ ملحوظ رہے کہ شمسی مہینے معتبر نہیں ہوں گے، بلکہ چاند ہی کے اعتبار سے مہینے شمار کیے جائیں گے۔

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ آپ کے شوہر کا انتقال یکم رمضان کو  ہوا ہے تو چار ماہ دس دن عدت گزارنا لازم  ہے، یعنی سائلہ کی عدت 10 محرم کو پوری ہوگی،  البتہ حاملہ عورت کی عدت بچہ جننے تک ہوتی ہے(بچہ پیدا ہوتے ہی عدت ختم ہوجاتی ہے، عورت دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوتی ہے)۔

فتاوی شامی میں ہے:

"في المحيط: إذا اتفق عدة الطلاق و الموت في غرة الشهر اعتبرت الشهور بالأهلة وإن نقصت عن العدد، وإن اتفق في وسط الشهر، فعند الإمام يعتبر بالأيام، فتعتد في الطلاق بتسعين يوماً، وفي الوفاة بمائة وثلاثين".

(كتاب الطلاق، باب العدة، ج:3، ص:509، ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله وللموت أربعة أشهر وعشر) أي:‌‌ عدة المتوفى عنها زوجها بعد نكاح صحيح...

عدة ‌الطلاق ‌والموت في غرة الشهر اعتبرت الشهور بالأهلة وإن أنقصت عن العدد وإن اتفق في وسط الشهر فعند الإمام تعتبر بالأيام فتعتد في الطلاق بتسعين يوما، وفي الوفاة بمائة وثلاثين يوما".

(كتاب الطلاق، باب العدة، عدة المتوفى عنها زوجها، ج:4، ص:143-144، ط:دار الكتاب الإسلامي)

الجوھرۃ النیرۃ میں ہے:

"وإذا مات الرجل عن امرأة الحرة فعدتها أربعة أشهر و عشرة و هذه العدة لاتجب إلا في نكاح صحيح".

(كتاب العدد، ج:2، ص:75، ط:المطبعة الخيرية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌لو ‌طلق ‌امرأته وقت العصر من أول يوم من الشهر وهي ممن تعتد بالأشهر تعتبر عدتها بالأهلة ومضى بعض اليوم لا يوجب تكملة بالأيام بخلاف اليوم الثاني والثالث كذا في الفتاوى الصغرى".

(كتاب الطلاق، الباب الثالث عشر في العدة، ج:1، ص:527، ط:رشيديه)

وفیہ أیضاً:

"وعدة الحامل أن تضع حملها، كذا في الكافي. سواء كانت حاملًا وقت وجوب العدة أو حبلت بعد الوجوب، كذا في فتاوى قاضي خان. و سواء كانت المرأة حرةً أو مملوكةً قنّةً أو مدبرةً أو مكاتبةً أو أم ولد أو مستسعاةً مسلمةً أو كتابيةً، كذا في البدائع.و سواء كانت عن طلاق أو وفاة أو متاركة أو وطء بشبهة، كذا في النهر الفائق. و سواء كان الحمل ثابت النسب أم لا، و يتصور ذلك فيمن تزوج حاملًا بالزنا، كذا في السراج الوهاج".

(كتاب الطلاق، الباب الثالث عشر في العدة، ج:1، ص:528، ط:رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509102193

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں