بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یک طرفہ خلع شرعًا معتبر نہیں


سوال

شادی کے ایک سال بعد میں نے  اپنی جاب شروع کی، شوہر میری تنخواہ بھی اپنے پاس رکھتا تھا، اور خود بھی ہم پر خرچ نہیں کرتا تھا، جون 2010میں عدالت نے میری خلع کی ڈگری جاری کی،کیس کےدوران شوہر ایک بار بھی عدالت میں حاضر نہیں ہوااور نہ ہی عدالت میں کوئی جواب دیا،بچے شوہر کے پاس  ہیں،مجھے ملنے نہیں دیتا،اب شوہر دوبارہ نکاح  کا مطالبہ کررہا ہے،  اس کا کہنا  ہے کہ یک طرفہ خلع  شریعت میں معتبر نہیں ہے، شرعاً مذکورہ صورت حال کا کیا حکم ہے؟ فتویٰ  جاری کرکے رہنمائی فرمائیں!

جواب

واضح رہے کہ خلع دیگر مالی معاملات کی طرح ایک  مالی معاملہ ہے ،جس طرح  دیگر مالی معاملات  میں متعاقدین کی  رضامندی  ضروری ہے ،اسی طرح خلع میں بھی میاں بیوی کی رضامندی ضروری  ہوتی ہے،کوئی ایک فریق راضی ہو دوسرا فریق  راضی  نہ ہو توایسا  خلع شرعاً معتبر نہیں  ہوتا اگر چہ وہ عدالتی یکطرفہ خلع ہی کیوں نہ ہو، بلکہ نکاح بدستور رقرا رہتا ہے۔

صورت  مسئولہ میں سائلہ کے حق میں مذکورہ عدالتی خلع کا فیصلہ اگر  شوہر کی  اجازت و رضامندی کے بغیر ہوا تھا،  شوہر  عدالت میں حاضر ہی نہیں ہوا تھا ،اور نہ ہی اس کی طرف سےکوئی وکیل پیش ہوا،اورعدالتی فیصلہ کے بعدتاحال  شوہر نے اس  فیصلہ کو زبانی یا تحریری کسی بھی اعتبار سےقبول نہیں کیا تھا  تو شرعًا یہ خلع معتبر نہیں   ہے ،سائلہ اور اس  شخص کانکاح  برقرار ہے، جس کی وجہ سے سائلہ دوسری جگہ شادی بھی نہیں کرسکتی،اگر دونوں اب ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو چوں کہ نکاح برقرار ہے، اس لیےتجدجدِنکاح کے بغیر بھی کے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں، اور اگر احتیاطاً تجدید ِ نکاح کرنا چاہیں تو دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کر سکتے ہیں۔

شامی میں ہے:

"و أما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب و القبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلاتقع الفرقة، و لايستحق العوض بدون القبول، بخلاف ما إذا قال: خالعتك و لم يذكر العوض و نوى الطلاق فإنه يقع."

(باب ا لخلع ج3،ص441،ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100600

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں