بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یک طرفہ عدالتی خلع شرعاً معتبر نہیں/ والدہ نے بچوں کے اخراجات اٹھائے تو کیا والد ان اخراجات کا ضامن ہوگا؟


سوال

تقریبا آٹھ سال پہلے دونوں خاندانوں کی باہمی رضامندی سے لڑکی اور لڑکے کی شادی انجام پائی اور جس سے ایک بیٹا ہوا جس کی عُمر چھ سال ہے۔ بعد کے معاملات کی تفصیل درج ذیل ہے:

1- شادی کے تقریباً دو سال بعد ہی مزاج میں ربط نہ ہونے کے باعث کشیدگی پیدا ہونے لگی، دونوں کے بیچ اختلافات وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے گئے۔

2- اسی دوران بیٹے کی پیدائش کے بعد بیوی کی جانب سے اپنی پڑھائی کے سلسلے کو جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا اور بیوی کے والد نے اُس کی پڑھائی کے اخراجات اٹھانے کی یقین دہانی کرائی جب کہ خاوند کو مزید تعلیم پر اعتراض تھا، لیکن پھر بھی خاوند کی جانب سے وقتاً فوقتاً بیوی کے طلب کرنے پر گھریلو اخراجات کے علاوہ بیوی کی پڑھائی کی مَد میں ہونے والے اخراجات کے پیسے بھیجواتا رہا۔

3- خاوند باہر سروس کر رہا تھا سال 2018 کے اوائل میں خاوند ذہنی بیماری کا شکار ہو کر پاکستان واپس آ گیا۔ یہاں پر اس کا علاج معالجہ چلتا رہا، لیکن کوئی افاقہ نہ ہو سکا کہ وہ سلسلہ روزگار کو جاری رکھ سکے۔

4- اسی اثنا میں بیوی کو ملازمت مل گئی اور اُس کی ماہوار تنخواہ مقرر ہو گئی۔ مرد کی تمام جمع پونجی علاج معالجے اور گھریلو اخراجات کی مَد میں خرچ ہونے کے بعد ختم ہو گئی اور پھر مرد کو مستقل طور پر اپنے والد اور بھائیوں سے اخراجات کی مَد میں تعاون درپیش رہا۔مشکل مالی مسائل اور مرد کی طویل ذہنی بیماری سے گھریلو ناچاقیاں بڑھنے لگیں۔

5- ایک روز تکرار کےباعث بیوی اپنے بیٹے اور شادی کے موقع پر خاوند کی طرف سے دیے جانے والے طلائی زیورات لے کر میکے چلی گئی اور شوہر کی جانب سے معافی تلافی اور واپس آجانے کی درخواست کے باوجود واپس نہ آئی۔ اِس دوران شوہر کی جانب سے بیوی بچےکے نان نفقے کی مَد میں کچھ بھی ادا نہیں کیا گیا۔

6- ناراضی کے دس ماہ بعد بیوی نے عدالت میں خلع کی درخواست دے دی۔ عدالتی سمن خاوند کو موصول ہوا، لیکن وہ کسی بھی عدالتی کاروائی کا حصہ نہ بنا۔ عدالت نے یک طرفہ فیصلہ کرتے ہوئے خاوند کی رضامندی کے بغیر بیوی کے حق میں ڈِگری جاری کر دی۔

7- عدالت کی جانب سے خلع کی تصدیق شدہ کاپی مرد کو موصول ہو گئی۔

8- یک طرفہ عدالتی خلع کے فیصلے کے ایک سال بعد مرد کی جانب سے شادی کے موقع پر پہنایا گیا سونا واپس کرنے کی درخوست کی گئی، جسے عورت کے میکے والوں نے مسترد کر دیا اور سونے کی واپسی سے انکار کر دیا اور سونے کی واپسی کو اپنے تین مطالبات سے مشروط کر دیا:

پہلا مطالبہ یہ کہ خلع سے پہلے کا دورانیہ، جس میں عورت ناراض ہو کر اور اپنے بچے کو لے کر اپنے میکے میں مقیم رہی، پہلے وہ تمام نفقہ  ادا کیا جائے۔

دوسرا مطالبہ یہ کہ خلع کے بعد سے لے کر اب تک بچے پر ہونے والے تمام اخراجات ادا کیے جائیں۔

تیسرا مطالبہ یہ کہ مستقبل میں بچے کے نان نفقے کا یقین دلایا جائے اور اُن کی جانب سے لکھے گئے ایک معاہدے کو من و عن تسلیم کر کے اُس پر دستخط کیےجائیں۔

درج بالا تفصیل کی روشنی میں براہٍ کرم درج ذیل سوالات کے جوابات شریعت کی روشنی میں عنایت فرماۓ جائیں:

1- خلع سے پہلے گھریلو اخراجات کے علاوہ وہ تمام اخراجات جو عورت شوہر کی رضا کے بغیر اپنی پڑھائی اور بہتر مستقبل کے لیے شوہر سے وصول کرتی رہی، کیا شوہر اُن اخراجات کو واپس مانگنے میں حق بجانب ہے؟

2- مرد اور عورت دونوں ایک خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے خاندانی اور برادری رواج کے مطابق شادی کے موقع پر شوہر کی طرف سے بیوی کو دیا گیا سونا اُن کے تعلق کے قائم رہنے تک عورت کے پاس رہتا ہے اور نکاح ختم ہو جانے کے بعد غیر مشروط طور پر سونا مرد کو اور جہیز کا سامان عورت کو واپس کر دیا جاتا ہے۔ عورت اپنا سامان واپس لے گئی ہے جب کہ سونا لڑکے کو واپس نہیں ہوا اس معاملے میں، جب کہ عورت کو دیے جانے والے سونے کی زکاۃ بھی مرد ادا کرتا رہا ہے، عورت کی ملکیت بھی نہیں تو کیا عدالتی خلع کے یک طرفہ فیصلے کے بعدشوہر کی جانب سے سونا واپس مانگنا شرعی طور پر جائز ہے؟

3- مرد عورت کے مابین جھگڑے کے باعث عورت اپنے بچے کو لے کر میکے چلی گئی اور شوہر کی جانب سے صلح کے پیغامات بھیجے جانے کے باوجود وہ واپس نہیں آئی۔ کیا اِس صورت میں خلع سے پہلے کے تمام گزشتہ عرصہ میں عورت اور بچے کا نان نفقہ مرد کے ذمے واجب الادا ہے؟

4- عدالتی خلع کے یک طرفہ فیصلے کے بعد سے لے کر اب تک مرد کی جانب سے بچے کے نان نفقے کی مَد میں کوئی رقم نہیں دی گئی اور عورت کے میکے والوں کی طرف سے بھی اس وقت تک اس کا مطالبہ نہیں کیا گیا جب تک کہ مرد کی جانب سے سونے کی واپسی کا مطالبہ سامنے نہیں آیا۔ کیا اس صورتِ حال میں خلع کے بعد عورت کے بھایئوں اور والد کی جانب سے بچے پر کیے گئے تمام اخراجات کی واپسی مَرد کے ذمہ ہے؟

5- مرد جس کو ذہنی دباؤ کا مرض لاحق ہے جس کے باعث اس کو روزگار کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا ہے فی الوقت اس کے علاج معالجے اور دیگر اخراجات کی تمام تر ذمہ داری والد اور بھائیوں کے کندھوں پر ہے۔ کیا اس صورتِ حال میں عورت کے میکے والوں کی جانب سے مرد سے بچے کا نان نفقہ مانگنا شرعی اعتبار سے جائز ہے؟

6- عدالت کی جانب سے سمن موصول ہوا، لیکن مرد کسی بھی عدالتی کاروائی کا حصہ نہیں بنا۔ عدالت نے خلع کی یک طرفہ ڈگری جاری کر دی۔ جب کہ اس میں مرد کی رضا شامل نہ تھی، کیا عدالت کی جانب سے جاری کی گئی ڈگری کی بنیاد پر طلاق واقع ہو گئی؟ کیا عورت دوسری شادی کے لیے آزاد ہے؟

7- کیا مرد شرعی طور پر بچے کی حوالگی کا مطالبہ کر سکتا ہے؟

جواب

1- شوہر کو  بیوی کی تعلیم کی مد میں دے جانے والے اخراجات کی واپسی کے  مطالبہ کا حق نہیں ہے۔

2-  لڑکی کو میکے والوں کی طرف سے جہیز   اور دیگر سامان دیا جاتا ہے، وہ لڑکی کا ہی ہوتا ہے، اور وہی اس کی مالکہ ہوتی ہے۔  اور لڑکے والوں کی طرف سے  نکاح کے موقع پر لڑکی کو مہر کے علاوہ جو  زیورات سسرال والوں کی طرف سے ملتے ہیں، ان میں یہ تفصیل ہے کہ: اگر  زیورات دیتے وقت  سسرال والوں نے اس بات  کی صراحت کی تھی کہ یہ  بطورِ عاریت یعنی صرف  استعمال کرنے کے لیے ہیں  تو پھر یہ  زیورات لڑکے والوں کی ملکیت ہوں گے، اور اگرسسرال والوں نے ہبہ، گفٹ اور  مالک بناکر دینے کی صراحت کردی تھی تو پھر ان زیورات  کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر  زیورات دیتے وقت کسی قسم کی صراحت نہیں  کی تھی   تو پھر لڑکے کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا، اگر ان کا عرف و رواج بطورِ ملک دینے کا ہے  یا ان کا کوئی رواج نہیں ہے تو ان دونوں صورتوں میں زیورات کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر  بطورِ عاریت دینے کا رواج ہے تو پھر سسرال والے ہی مالک ہوں گے۔ سوال میں مذکورہ صورت میں اگر واقعتًا لڑکے کے خاندان کا عرف یہی ہے کہ زیورات بیوی کو صرف استعمال کے لیے دیے جاتے ہیں، ملکیت شوہر کی رہتی ہے تو یہ زیورات شوہر واپس لے سکتاہے۔

3، 4، 5 - جوبیوی  شوہر کی اجازت کے بغیر  بلا وجہ میکے میں بیٹھی ہو وہ ناشزہ ہونے کی وجہ سے نفقہ کی حق دار نہیں، جب تک وہ واپس شوہر کے گھر نہ آجائے یا شوہر اس کو میکے میں رہنے کی اجازت نہ دے دے اس وقت تک شوہر کے ذمہ اس کا نان نفقہ دینا واجب نہیں ہے۔

البتہ بچوں کے نان و نفقہ کے اخراجات بچوں کے والد کے ذمے ہوتے ہیں، خواہ وہ والد کے پاس ہوں یا والدہ کے پاس، لیکن اگر والدہ باہمی رضامندی سے یا عدالت کے ذریعے بچے کا خرچہ طے کیے بغیر اپنے طور پر بچے کے اخراجات ادا کرتی رہی، یا اس کے گھر والے ادا کرتے رہے تو اب وہ  یا اس کے گھر والے شوہر سے گزرے ہوئے زمانے کے نفقے کا مطالبہ نہیں کرسکتی،تاہم والد اپنی خوشی سے ادا کردے تو یہ اس کی طرف سے تبرع و احسان ہوگا۔ 

6-  شوہر عدالت میں حاضر نہیں ہوا اور اس نے زبانی یا تحریری طور پر خلع کو قبول نہیں کیا تو ایسے یک طرفہ عدالتی فیصلے کو شرعی خلع قرار نہیں دیا جاسکتا؛ کیوں کہ شرعی طور پر خلع کے معتبر ہونے کے لیے میاں بیوی دونوں کی رضامندی ضروری ہے، جب کہ مذکورہ صورت میں  خلع کا فیصلہ شوہر کی اجازت و رضامندی سے نہیں ہوا اور شوہر نے اس خلع نامہ پر دستخط کر کے اس کو قبول بھی نہیں کیا، لہذا یہ خلع شرعاً معتبر نہیں ہے، اور عورت کے لیے اس کی بنیاد پر دوسری جگہ شادی کرنا جائز  نہیں ہے؛ جب تک شوہر طلاق نہ دے، یا شوہر کی رضامندی کے ساتھ خلع نہ لیا جائے۔

1- اگر بچہ ہو تو سات سال کی عمر، اور اگر بچی ہو تو نو سال کی عمر کے  بعد باپ کو لینے کا شرعاً حق حاصل ہو گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في النهر: وأقول: و ينبغي أن لايقبل قوله أيضًا في الثياب المحمولة مع السكر ونحوه للعرف. اهـ. قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً".۔۔ والمعتمد البناء على العرف كما علمت۔۔۔كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها."

(کتاب النکاح، باب المہر، مطلب فيما يرسله إلى الزوجة، ج: 3، صفحہ: 153 و157 و158، ط:ایچ، ایم، سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لايشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة...وبعد الفطام يفرض القاضي نفقة الصغار على قدر طاقة الأب و تدفع إلى الأم حتي تنفق علي الأولاد، فإن لم تكن الأم ثقةً تدفع إلى غيرها لينفق على الولد... الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب و لم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا أو يؤاجرهم و ينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، و أما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل أو خدمة، كذا في الخلاصة."

(کتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج: 1، صفحہ: 560 و561 و562، ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144205200619

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں