بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

یک طرفی عدالتی خلع


سوال

میری بہن  کا ایک سال پہلے ایک شخص سے نکاح  ہوا  اور ابھی تک  رخصتی نہیں ہوئی ، جس شخص سے نکاح  ہوا تھا  اس کے والد صاحب  نے گھر میں بنات کا مدرسہ     بھی بنا رکھا ہے ، نکاح  کے بعد  اس کے والد  نے کہا کہ یہ لڑکی ہمارے  گھر کے مدرسہ میں  پڑھائے گی  اور ہم نے  ان کی بات مانتے ہوے  اپنی بہن کو  وہاں  پڑھانے   بھی بھیج دیا  ، اس دوران  ہماری بہن  نے  ان کے گھر  کے حالات  سسر اور شوہر  کو اچھے طریقہ سے  دیکھ لیا  ،ہماری بہن  کا کہنا ہے کہ  میرا شوہر  بد کردار  ہے   ، وہ دیگر  نامحرموں کے ساتھ  دوستی بھی  رکھتا ہے  اور انہیں   اپنے ساتھ  بائیک پر بھی گھماتا ہے   اور اس کے والد صاحب بھی  بد کردار ہیں  اور اپنی بہو  پر گندی نظر یں  رکھتے ہیں ، لڑکا اور اس کے والد  یہ طعنہ دیتے   ہیں کہ ہم  اس لڑکی  کے رشتہ  کے لیے راضی نہیں  تھے ، لڑکے کی والدہ کے زور پر   ہم نے یہ رشتہ کیا ہے ۔

اب میری بہن  اس بات پر بضد ہے کہ   میں نے  اس لڑکے  کے ساتھ  زندگی نہیں گزارنی  مجھے طلاق چاہیے  اور لڑکا  طلاق بھی نہیں دے رہا  ہے،  اب ہمارے لیے عدالت سے خلع لینا جائز ہے  یا  نہیں ۔ اور اگر عدالت  خلع کے لیے  لڑکے کو بلاتی   ہے ، اور وہ عدالت میں حاظر نہیں ہوتا  اور عدالت  خلع کا فیصلہ صادر کرتی ہے  تو کیا عدالت  کا فیصلہ نافذ ہوگا ۔    

جواب

شریعت مطہرہ میں خلع  بھی دیگر مالی معاملہ  کی طرح ایک مالی معاملہ  ہے، جس میں  فریقین   ( شوہر بیوی ) کی رضا مندی   ضروری ہے  ،لہذا خلع کے حصول کے لیے بیوی اگر عدالت سے رجوع کرتی ہے عدالت کے بلانے پر شوہر  اگر عدالتی  خلع پر رضامندی ظاہر کرے تب تو خلع معتبر اور درست ہوگا، لیکن اگر شوہر  عدالت میں حاضر  نہ ہو یا حاضر ہو کر اس عدالتی فیصلہ پر رضامندی ظاہر نہ کرے تو شرعاً یک طرفہ عدالتی خلع معتبر نہیں ہوگا ۔

وفی المبسوط للسرخسی:

والخلع جائز عند السلطان وغیره لأنه عقد یعتمد التراضی کسائر العقود وهو بمنزلۃ الطلاق بعوض۔

 (باب الخلع/ 6/۱۷۳/ط:دار الفکر)

وفی بدائع الصنائع :

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول...."

(کتاب الطلاق،فصل واماالذی یرجع الی المرأۃ،ج:۳،ص:۱۴۵/   ط:سعید)

 فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144304100510

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں