بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یک طرفہ خلع شرعًا معتبر نہیں اور نکاح برقرار ہے


سوال

گزارش ہے کہ  ميری  شادی سن2008ء میں ایک شخص کے  ساتھ ہوئی تھی ۔اس کے بعد شوہر کے ساتھ دبئی چلی گئی تھی،  وہاں ان کے گھر والے موجود تھے ،خیر وقت کے ساتھ اللہ نے مجھے دو بیٹوں کی نعمت سے نوازا ، اس دوران میری شادی  شدہ  زندگی بالکل ٹھیک نہ تھی  ،ان کے گھر والوں نے مجھے وہاں بہت تنگ کر کے رکھا۔میرے  دودھ پیتے بچے مجھ سے چھین لیے اور مجھے وہاں سے نکال دیا ۔میرا اس شہر میں کوئی نہیں تھا، بہت مشکل سے میری والدہ اور بھائی وہاں پہنچے اور انہوں نے کوشش کی کہ گھر خراب نہ ہو ، مگر انہوں نے اس وقت ایک نہ سنی  اور مجھے گھر سے نکال دیا اور بچے بھی اپنے پاس رکھ لیے  ۔

میں اپنے گھر والوں کے ساتھ  پاکستان آگئی  اور میں روز فون کر تی تھی کہ  میرے بچے مجھے دے دو،  مگر اس وقت نہ انہوں نے بچوں کو دیا اور نہ مجھے بلا رہے تھے ۔پھر مجھے بتا گیا کہ  انہوں  نے دوسری شادی کرلی ہے  ۔میں بہت روتی رہی  اور غصے میں آکر  میں نے پاکستان  کورٹ سے  یک  طرفہ(one side)    خلع لے لیا؛ کیوں کہ یہ دبئی میں تھے اور ان کے  پاکستان والے گھر میں کوئی  موجود نہیں تھا اور نہ میرے شوہر کو بتایا گیا تھا کہ  میں خلع لے رہی ہوں ؛ کیوں کہ جب انہوں نے دوسری شادی کری تھی تو  میں  طلاق مانگ رہی تھی  وہ مجھے طلاق نہیں دے رہے تھے  تو میں  نے یک طرفہ خلع  لے لیا تھا  ۔

اب انہوں نے دوسری بیوہ کو بھی چھوڑ دیا ہے  اور میں اپنے بچوں اور شوہر کے پاس جانا چاہتی ہوں  ۔میرے  شوہر بھی تیار ہیں۔اب  ہمیں  تحریری فتوی چاہیے  ؛ تاکہ  میں گھر والوں کو بھی بتا سکوں اور سسرال والوں کو بھی  بتا سکوں  کہ  ہمارا نکاح  برقرار ہے اور وہ  خلع شرعًا معتبر نہ تھا۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں   سائلہ کا بیان اگر واقعتًا  صحیح اور درست ہے  کہ  اس نے  شوہر کے دوسری شادی کرنے کی وجہ سے عدالت سے یک طرفہ خلع لیا تھا  اور شوہر کو اس بارے میں کچھ معلومات نہیں تھیں تو وہ خلع شرعًا معتبر نہیں تھا اور سائلہ بدستور اپنے شوہر کے نکاح  میں ہے ؛ لہٰذا اب اگر  دونوں   میاں بیوی کی حیثیت   سے  ساتھ  رہنا چاہتے ہیں تو  ساتھ رہ سکتے ہیں اور شرعًا نئے نکاح کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

بدائع الصنائع  میں ہے:

"و أما ركنه فهو الإيجاب و القبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة، و لايستحق العوض بدون القبول."

                                    (کتاب الطلاق/3/ 145/ط:سعید)

 المبسوط للسرخسی میں ہے:

         "و الخلع جائز عند السلطان و غیره؛ لأنه عقد یعتمد التراضي کسائر العقود و هو بمنزلة الطلاق بعوض."

 ( دار الکتب العلمیۃ بیروت۶/۱۷۳)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100183

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں